حسین احمد
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجمی است
تعارف: ہندوستان مختلف زبانیں اور مذاہب رکھنے والے لوگوں کا ملک تھا ۔ اس میں دو بڑی قو میں ہندو اور مسلمان آباد تھیں ۔ جب انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کی آزادی کا نعرہ لگایا تو ابتدا میں مسلمانوں نے بھی ہندووَں کا ساتھ دیا ۔ لیکن بعد میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے جس سے مسلمانوں کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ ہندو اپنی بھاری اکثریت کی بنا پر ہمیشہ کے لیے حکمران رہیں گے اور مسلمان قوم انگریز کی بجائے ہندو کی غلامی میں آ جائے گی ۔ چنانچہ مسلمانوں کے نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے یہ مطالبہ کر دیا کہ ہندو اور مسلمان چونکہ دو الگ الگ قو میں ہیں اس لیے ان علاقوں اور صوبوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں پاکستان کے نام سے ایک الگ آزا د مملکت قائم کی جائے ۔ جس میں مسلمان اپنی مرضی اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کر سکیں ۔ مسلمانوں کی ان جماعتوں نے جو اس وقت انڈین نیشنل کانفریس کا ساتھ دے رہی تھیں مسلم لیگ کے اس مطالبہ کی ڈٹ کر مخالفت کی ۔ اور کہا کہ یہ غلط ہے کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلم دو الگ الگ قو میں آباد ہیں ۔ یہاں صرف ایک ہی متحدہ قوم بستی ہے جس کا نام ہندوستانی قوم ہے ۔ ان جماعتوں نے جن میں جمیعت العلمائے ہند پیش پیش تھی مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے مطالبہ کہ سخت مخالفت کی اور متحدہ قومیت کا نعرہ لگا کر ہندوستان کو متحد رکھنے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس کا بھرپور ساتھ دیا ۔ اسی جماعت کے علامہ میں سے ایک کا نام مولانا حسین احمد مدنی تھا جو دیوبند مدرسے میں شیخ الحدیث تھے ۔ انھوں نے جب ایسی تقریریں شروع کیں جن میں مذہب کے بجائے وطن کو قوم کی بنیادقرار دے دیا گیا تھا ۔ اور متحدہ قومیت کا پرچار کر کے پورے ہندوستان کی حکومت ہندو کانگریس کو دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا تو علامہ اقبال کو اس پر بڑا صدمہ پہنچا اس وقت ان کے جو تاثرات تھے ان کو انھوں نے فارسی کے ان تین شعروں میں قلم بند کیا ہے ۔
مطلب: معلوم ہوتا ہے کہ ملک عرب سے باہرکا علاقہ ابھی تک دین اسلام کی حقیقی رمز کو نہیں پا سکا ۔ اگر پا چکا ہوتا تو دیوبند کے اسلامی مدرسے کے شیخ الحدیث حسین احمد مدنی یہ تعجب والی بات نہ کرتے کہ ملت کا تعلق وطن سے ہے مذہب سے نہیں ۔ یہ ان کے منہ سے کیا حیران کن بات نکلی ہے ۔
سرود، سربسرِ منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقامِ محمد عربی است
مطلب: مولانا حسین احمد مدنی نے مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر جہاں سے حق کی آواز سربلند ہونی چاہیے تھی یہ باطلی تقریر بڑے دلکش انداز میں جھوم جھوم کر کی کہ مسلمان قوم کی قومیت کی بنیاد وطن ہے نہ کہ اس کا دین یا توحید الہی حالانکہ انہیں تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ جہاں جہاں بھی کلمہ گو آباد ہیں وہ سب رنگ، نسل وطن اور علاقہ کے اختلاف کے ایک وحدت یا ایک قوم ہیں لیکن انھوں نے وطن کو قومیت کا نظریہ قرار دے کر یہ تسلیم کیا اور دوسروں کو تسلیم کرنے کے لیے کہا کہ ہر ملک کے مسلمان اپنے اپنے وطن کے اعتبار سے الگ الگ قوم سے تعلق رکھتے ہیں ہندوستان کے مسلمان بھی ہندوستانی قوم کا حصہ ہیں اس لیے انہیں ہندو کانگریس کا یہ نظریہ تسلیم کر لینا چاہے کیونکہ یہاں کے مسلمان ہندووَں سے الگ نہیں بلکہ ہندووَں کے ساتھ مل کر ایک متحدہ قومیت کا جزو ہیں ۔ اس لیے الگ وطن حاصل کرنے کا مطالبہ دینا چاہیے اور ہندووَں کے ساتھ مل کر حکومت اور ملک کا کاروبار چلانا چاہیے ۔ اگر وہ اتنا سوچ لیتے کہ ہندوستان سے انگریزوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جو جمہوری طرز کی حکومت قائم ہو گی اس میں ہندو 85 فیصد ہوں گے اور مسلمان صرف 15 فیصد ۔ جس کے نتیجے میں ہندو اکثریت ہمیشہ کے لیے جملہ مسلمانوں پر چاہے وہ اقلیتی علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں اور چاہے اکثریت کے علاقہ میں رہتے ہوں مسلط رہے گی ۔
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است
مطلب: اس شعر میں علامہ مولانا حسین احمد مدنی کو اور جملہ مسلمانان عالم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو حضرت محمد مصطفی ﷺ تک پہنچاوَ ۔ مراد ہے اپنی زندگی کے ہر شعبے میں چاہے وہ خفی ہو یا عقلی ہو چاہے وہ ظاہر ہو یا باطن ہو سب میں قرآن و سنت کے ذریعے دیئے گیے نبی کریم ﷺ کے نظام کو پیش نظر رکھو ۔ اگر ایسا نہیں کرو گے اور اس سے ہٹ کر فکر و عمل کی کوئی دنیا بساوَ گے تو چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے اور ظاہرً کتنی ہی دلکش کیوں نظر نہ آتی ہو ابولہب کی دنیا ہو گی ۔