(20)
عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں
مطلب: نظم کے اس پہلے شعر میں انھوں نے عقل اور عشق کے حوالے سے بات کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ محبوب کا آستانہ ایک عاشق اپنے عقلی شعور کی بنیاد پر تو پا سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کی دانش اس آستاں پر باریابی حاصل کر سکے ۔ مراد یہ کہ عشق تو ایک والہانہ جذبے کا نام ہے جب کہ عقل کا مسلک استدلال ہے ۔ یہی تضاد عقل اور عشق کے مابین حائل ہے ۔
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں
معانی: لازم ہے کہ حق تعالیٰ سے وہ بصیرت بھی طلب کی جائے جس سے دل روشن ہو سکتا ہے ۔ اس لیے کہ صرف بصارت چشم ہی دل کے لیے بصارت نہیں بن سکتی ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دل ہی روشن نہ ہو تو محض آنکھ کی روشنی کافی نہیں ۔ عملاً بصارت اور بصیرت کے بغیر انسان کی تکمیل نہیں ہو سکتی ۔
علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
مطلب: علم کی تعریف بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ بے شک علم میں ایک کیف آور جذبہ تو موجود ہے لیکن اس کیف آور جذبے کی رسائی دل تک نہیں ہوتی بلکہ یہ تو دماغ تک محدود رہتا ہے ۔ چنانچہ علم دراصل عملاً ایک ایسی بہشت کی حیثیت رکھتا ہے جس میں حور تو الگ رہی اس کا تصور بھی موجود نہیں ۔ علامہ نے اس سے پہلے شعر میں دل اور آنکھ کے مابین فرق کا ذکر کیا تھا جب کہ اس شعر میں وہ علم اور دل کے حوالے سے بات کر رہے ہیں ۔
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں ایک بھی صاحبِ سرور نہیں
مطلب: یہ امر کس قدر افسوس ناک ہے کہ بقول اقبال ایک شخص بھی ایسا موجود نہیں جو ذوق و شوق کا مالک ہو یعنی عشق حقیقی سے صحیح طور پر لطف اندوز ہو سکے ۔
اک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں
مطلب: اک جنوں تو ایسا ہے جس میں ہو ش و حواس اور شعور قائم رہتے ہیں جب کہ ایک جنون اس کے برعکس ہے اس میں انسان ہوش و حواس اور شعور اور شعور سے بیگانہ ہو جاتا ہے ۔ اقبال کے نزدیک حقیقی وہی ہے جس میں ہوش و حواس قائم رہ سکیں ۔ یہی وہ کیفیت ہے جو عشق حقیقی تک لے جاتی ہے ۔
ناصبوری ہے زندگی دل کی آہ! وہ دل کہ ناصبور نہیں
معانی: ناصبوری: بے صبری ۔
مطلب: دل میں اضطراب اور تڑپ کی موجودگی ہی دراصل دل کے زندہ ہونے کا ثبوت ہیں چنانچہ عملاً وہ دل بے حسی کا حامل ہے جس میں تڑپ اور اضطراب موجود نہ ہو ۔
بے حضوری ہے تیری موت کا راز زندہ ہو تُو تو بے حضور نہیں
مطلب: محبوب کی بارگاہ سے محرومی ایک طرح سے موت کے مترادف ہے اور اس کی بارگاہ تک رسائی زندگی کی دلیل ہے ۔
ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا تو ہی آمادہَ ظہور نہیں
مطلب: اقبال خدا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تمام موتی سیپیوں کو توڑ کر باہر نکل آئے لیکن ایک تو ہی ہے جس نے ظہور نہیں کیا اور ابھی تک مستور ہے ۔
اَرِنی میں بھی کہہ رہا ہوں مگر یہ حدیثِ کلیم و طور نہیں
مطلب: میں بھی حضرت موسیٰ کی مانند حق تعالیٰ سے جلوہ نمائی کی استدعا کر رہا ہوں لیکن میں اس امر کا خواہاں نہیں کہ اس کے جلوے کو دیکھ کر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاؤں میں تو اسے عالم ہوش میں دیکھنے کا خواہاں ہوں ۔