Please wait..

فقر و ملوکیت

 
فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلب سلیم

معانی: جنگاہ: میدان جنگ ۔ بے ساز و یراق: ہتھیار او ر ساز و سامان کے بغیر ۔ ضرب کاری: ہلاک کرنے والی چوٹ ۔ قلبِ سلیم: ماننے والا دل ۔
مطلب: فقیری دنیا کے میدان جنگ میں ساز و سامان کے بغیر اترتی ہے چونکہ درویش کے پاس پاک اور ہر قسم کی روحانی بیماری سے شفایاب دل ہوتا ہے اس لیے اس کا وار تلوار اور لشکری قوت و سامان سے بھی زیادہ سخت اور کارگر ہوتا ہے ۔

 
اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصہَ فرعون و کلیم

معانی: بے باکی: نڈر ہونا ۔ بے تابی: بے چینی ۔ فرعون: مصر کا ظالم بادشاہ ۔ کلیم : موسیٰ کلیم اللہ ۔
مطلب: درویشی باطل سے ٹکرانے اور حق کو پھیلانے کے لیے ہمیشہ بے خوف اور بے قرار رہتی ہے ۔ وہ اس کیلیے ہر لمحہ پہلے سے بھی زیادہ بے خوف اور بے قرار ہوتی ہے ۔ اس درویش مزاجی کی وجہ سے ہر عہد میں فرعون و کلیم کا قصہ تازہ ہوتا رہتا ہے یعنی حق و باطل کی جنگ ہر دور میں رہتی ہے جس طرح اپنی ساری قوت کے باوجود فرعون اور اس کے لشکر نے موسیٰ سے شکست کھائی تھی اسی طرح فقر کے سامنے بادشاہت اور طاقت بھی ہر دور میں شکست کھا جاتی ہے ۔ لیکن افسوس ہے آج کے مادی دور میں درویشی کی اہمیت لوگوں کی نظروں میں نہیں رہی اور خود درویش بھی دنیادار ہو گئے ہیں ۔ فرعون شکن درویشی اگر آج بھی ہو تو ہر باطل قوت سے ٹکرایا جا سکتا ہے اور اس پر فتح بھی حاصل کی جا سکتی ہے ۔

 
اب ترا دَور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھا گئی روحِ فرنگی کو ہوائے زر وسیم

معانی: فقرِ غیور: غیرت مند فقیری ۔ روحِ فرنگی: یورپی تہذیب ۔ ہوائے زر :سونے چاندی کا لالچ ۔
مطلب: فقر کے لغوی معنی تنگ دستی اور غریبی کے ہیں ۔ اور یہ اچھی چیز نہیں ۔ ایسا صاحب فقر دنیا کا محتاج اور بھکاری ہوتا ہے لیکن یہاں فقر اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوا ہے جو غیرت والا ہوتا ہے اور صاحب فقر کچھ نہ ہونے کے باوجود کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ سب اس کے محتاج ہوتے ہیں ۔ وہ دنیا سے نفرت کرتا ہے اور دنیا اس کے قدموں میں گرتی ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ یورپ اور اہل یورپ کی تہذیب و ثقافت اور علم و فن نے سارے لوگوں کو مادیت کا پرستار بنا دیا ہے ۔ شکم پرست بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ہر کوئی دولت اور سونے چاندی کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے ۔ جس سے انسانی قدریں تباہو چکیں ہیں اور انسانی بھیس میں ہر طرف حیوانوں کے ریوڑ نظر آتے ہیں ۔ اقبال کو امید بلکہ یقین ہے کہ دنیا ایک دن خود ہی اپنے اس کیے پر پچھتائے گی اور پھر وہ دور آئے گا جو درویشی کا دور ہو گا ۔ جس میں انسانیت اور شرف آدمیت بحال ہو گا ۔

 
عشق و مستی نے کیا ضبطِ نفس مجھ پر حرام
کہ گرہ غنچے کی کھُلتی نہیں بے موجِ نسیم

معانی: ضبط نفس: روح کو قابو میں رکھنا ۔ غنچے کی: کلی کی ۔ بے موجِ نسیم: صبح کی ہوا کے بغیر ۔
مطلب: عشق اور مستی نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ جو بات میری جان ، میرے دل اور میری سانس میں ہے اسے میں صاف صاف بیان کر دوں جس طرح غنچے کا منہ صبح کی ٹھنڈی ہوا کے بغیر نہیں کھلتا اسی طرح عشق و مستی کے بغیر ایسی بات واشگاف طور پر زبان پر نہیں لائی جا سکتی ۔ میں نے صاف صاف بیان کر دیا ہے جو کچھ میں نے محسوس کیا ہے اور وہ یہ کہ فرنگیوں کی مادہ پرستی کا دور ختم ہونے والا ہے اور غیرت منددرویشی کا پھر سے رواج ہونے والا ہے ۔ اس زمانے میں انسانی قدریں پھر بحال ہو جائیں گی اور انسان حیوان سے پھر انسان بن جائے گا ۔