تہذیبِ حاضر
(تضمین بر شعر فیضی)
حرارت ہے بلا کی بادہَ تہذیب حاضر میں بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تنِ خاکی
معانی: فیضیَ ابوالفیض تخلص فیضی ، شیخ مبارک ناگوری کا بیٹا اور اکبر بادشاہ کے وزیر ابوالفضل کا بڑا بھائی دربار اکبر کا ملک الشعرا شہزادوں کا اتالیق رہا ۔ تہذیب حاضر: موجودہ دور کا تمدن جو یورپی تہذیب سے متاثر ہے ۔ بھڑک اٹھنا: آگ کا تیز جلنا ۔ بھبوکا: آگ کا شعلہ ۔ تنِ خاکی: مٹی کا جسم ۔
مطلب: عالمی سطح پر جو تہذیب راءج ہے وہ مغرب کی وضع کردہ ہے ۔ اس تہذیب میں اتنی حرارت اور حدت ہے جس نے ملت اسلامیہ کو بھی بھسم کر کے رکھ دیا ہے ۔ مراد یہ ہے مسلمانوں کی اپنی زندہ تہذیب اور مستحکم روایت کے باوجود یورپی تہذیب اس قدر بھرپور انداز میں عام ہو چکی ہے کہ مسلم تہذیب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ۔
کیا ذرّہ کو جگنو، دے کے تابِ مستعار اس نے کوئی دیکھے تو شوخی آفتابِ جلوہ فرما کی
معانی: تابِ مستعار: ادھار کی مانگی ہوئی چمک ۔ شوخی: شرارت، چالاکی ۔ آفتابِ جلوہ فرما: روشنی پھیلانے والا سورج ۔
مطلب: قدرت کی یہ ستم ظریفی دیکھییے کہ یورپی تہذیب کو ایسی روشنی عطا کی ہے جس کے ذریعے یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک ذرے کو جگنو کی شکل میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بے باکی
معانی: انداز: طور طریقے ۔ رعنائی: خوبصورتی، خود کو سجانا ۔ بیدار: جاگنے کا عمل ۔ آزادی: یعنی ہر لحاظ سے آزاد ہونا ۔ بیباکی: بے خوفی ۔
مطلب: نوجوانوں نے نئے طور طریقے اپنا لیے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم نوجوانوں نے وہی رعنائی، بیداری، آزادی اور بے خوفی کے انداز اپنا لیے جو مغرب کی تہذیب سے عبارت ہیں ۔
تغیر آ گیا ایسا تدبّر میں ، تخیل میں ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی
معانی: تغیر: تبدیلی ۔ تدبر: سوچ بچار، غوروفکر ۔ تخیل: مراد خیالات ۔ جگر چاکی: دل کا پھٹنا، یعنی کلیوں کی پتیوں کا بکھرنا ۔
مطلب: اقبال آئندہ چل کر اس نظم میں کہتے ہیں کہ انسانی تدابیر اور تخیل میں اس نوع کی تبدیلی واقع ہو گئی ہے کہ خلوص کے ساتھ انجام دیے ہوئے کارناموں کو بھی اب مذاق سے تعبیر کیا جانے لگا ہے اور ہر نوع کی قربانی کو محض دکھاوے کا نام دیا جا رہا ہے ۔
کیا گم تازہ پروانوں نے اپنا آشیاں لینا مناظر دل کشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی
معانی: تازہ پروانہ: نیا نیا اڑنے والا، نئی نسل، نوجوان نسل جو تہذیب حاضر سے متاثر ہے ۔ مناظر: جمع منظر، نظارے ۔ ساحر: جادوگر یعنی نئی تہذیب ۔
مطلب: لیکن تہذیب حاضر کے نوجوانوں پر اثرات کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ ماضی کی مستحکم روایت اور اسلام کے وضع کردہ بلند ترین اصول فراموش کر چکے ہیں اور اس راہ سے بھٹک کر اب تباہی کے غار میں گر رہے ہیں ۔
حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذّتیں کیا کیا رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی
معانی: حیاتِ تازہ: نئی زندگی، تہذیب ۔ لذّتیں : جمع لذت ، مزے ۔ رقابت: دشمنی، حسد ۔ خودفروشی: اپنی عزت کا خیال نہ کرنے کی حالت ۔ ناشکیبائی: بے صبری ۔ ہوسناکی: حرص اور لالچ ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جب سے مغربی تہذیب مشرق پر اثر انداز ہوئی تو اس کے منفی اثرات رقابت، خودفروشی، بے صبری اور حرص و ہوس کی صورت میں رونما ہوئے ہیں ۔ یعنی مسلم نوجوان نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے حسد کرنے لگے ہیں بلکہ انھوں نے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے اپنے آپ کو غیروں کے ہاتھوں بیچ دیا ہے ۔ وہ اس قدر بے صبرے اور ناشکرے بن چکے ہیں کہ لالچ اور حرص و ہوا نے ان کی تمام تر اچھی صلاحیتیں چھین لی ہیں ۔
فروغِ شمعِ نو سے بزمِ مسلم جگمگا اٹھی مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی
معانی: فروغ: روشنی ۔ شمعِ نو: مراد نئی تہذیب ۔ جگمگانا: چمکنا ۔ بزمِ مسلم: مسلم قوم کے افراد ۔ پروانے: مراد نئی تہذیب کے عاشق ۔ کہنہ ادراکی: پرانی قوتِ فہم یعنی مختلف تجربوں سے گزرا ہوا شعور ۔
مطلب: بظاہر اس نئی تہذیب سے مسلمان استفادہ کر کے دوسری قوموں کی برادری میں شامل ہو رہے ہیں لیکن میری ماضی پرست فطرت کسی اور امر کی نشاندہی کر رہی ہے ۔
تو اے پروانہ! ایں گرمی ز شمعِ محفلے داری چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری
مطلب: اے پروانے تو جو جل رہا ہے تو محفل کی شمع کی تپش سے جل رہا ہے ۔ اگر تجھ میں ذرا سی دل کی تپش (جذبہَ عشق) ہے تو پھر میری طرح اپنی آگ میں جل جا ۔