Please wait..

ابوالعلا معّری

 
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معرّی
پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات

معانی: اقبال نے اپنے پیغام اور فکری اظہار کے لیے ایسے کرداروں کا انتخاب کیا ہے جو کسی نہ کسی حیثیت سے ممتاز ہیں اور منفرد حیثیت کے حامل ہیں جیسے سکندر، دارا، ارسطو، سقراط، منصور، نادر شاہ، خوشحال خان خٹک، امام حسین ، امیر المومنین امام علی اور بے شمار کردار ایسے ملیں گے جو علامہ کے فکری اور شعری نظام میں اپنے خصوصی کردار کے سبب اہم حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس نظم کا مرکزی کردار ابوالعلا معری عربی زبان کا ممتاز شاعر تھا ۔ وہ نابینا ہونے کے علاوہ بلا کے حافظے کا مالک تھا ۔ معری کے شعری دیوان کے علاوہ اس کی دو تصنیفات غفران اور لزومات بھی انتہائی طور پر قابل ذکر ہیں ۔ اس نظم میں بھی ان کا ذکر موجود ہے ۔ نظم کے مرکزی خیال کے مطابق ابو العلا معری چھیاسی سال تک جیا لیکن کم و بیش پینتالیس سال تک اس نے گوشت کو ہاتھ نہیں لگایا اور محض سبزیات پر گزر اوقات کی ۔ اس مسئلے کا تذکرہ بھی ان اشعار میں آئے گا ۔ تاہم اس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کمزو ر اور ضعیف انسان کو ابتدائے آفرینش سے ہی جینے کا حق نہیں دیا گیا جب کہ طاقتور کو ہر اعتبار سے معزز و محترم سمجھا جاتا ہے اس پس منظر کے حوالے سے اب نظم کی طرف آئیے ۔ یہ ایک تاریخی روایت ہے کہ ابوالعلا معری گوشت کھانے سے پرہیز کرتا تھا اور محض پھل اور سبزیات پر ہی گزر اوقات کرتا تھا ۔

 
اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہو مات

مطلب: اس کے ایک دوست نے ایک دن معری کے لیے بڑی چالاکی کے ساتھ بھنا ہوا تیتر بھیجا کہ شاید وہ تیتر کی لذت اور خوشبو کے سبب اپنی قسم توڑ دے لیکن معری بڑا صاحب کردار اور با اصول شخص تھا ۔ اس نے اس تیتر کے بجائے معمول کے مطابق سبزی پر ہی گزارا کیا ۔

 
یہ خوانِ تر و تازہ معرّی نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحبِ غفران و لزومات

مطلب: تاہم جب اسے اپنے دوست کے بھیجے ہوئے بھنے تیتر کا علم ہوا تو جو غفران اور لزومات جیسی تصانیف کا تخلیق کار تھا تیتر سے مخاطب ہو کر یوں گویا ہوا ۔

 
اے مرغکِ بیجارہ، ذرا یہ تو بتا تو
تیرا وہ گنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات

معانی: مرغک: ننھا پرندہ ۔ بیچارہ: معصوم ۔ مکافات: سزا ۔
مطلب: اے ناتواں اور مسکین پرندے! ذرا یہ تو بتا کہ تو نے وہ کون سا گناہ کیا تھا جس کے سبب تجھے یہ دن دیکھنا پڑا یعنی تجھے آخر یہ کس گناہ کی سزا ملی ۔

 
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

مطلب: تیرے اس انجام پر بے شک مجھے بے حد افسوس ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ فطرت کے اشارات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور شاہین بننے سے گریز کیا یعنی اگر تو عقاب کی سی بلندی پروازی کا حوصلہ اور جراَت کا حامل ہوتا تو کس کی ہمت تھی جو تجھے اس طرح شکار کر کے دسترخوان پر لاتا ۔ تیری کمزوری ہی اس عمل کا سبب بنی ۔

 
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

مطلب: اور میرا یہ قول بھی سن لے کہ فطرت کا اشارہ تقدیر کے مفتی کا وہ فتویٰ ہے جو اس نے ازل سے جاری کیا ہوا ہے کہ ناتوانی اور کمزوری کا انجام موت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ جو کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں جو طاقتور لوگوں کا شکار بن جاتے ہیں اور دنیا میں ہر طرح کے منصب و اعزاز سے محروم رہ کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال عملی طور پر خود اس نقطہ نظر کے حامی تھے جو انھوں نے ابوالعلا معری کی وساطت سے ملت اسلامیہ کو پہنچایا ۔