(56)
کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحبِ ہوش اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
معانی: صاحبِ ہوش: عقل مند ۔ فردا: آنے والا کل ۔ دوش: گزرا ہوا کل ۔
مطلب: دانشوروں سے مخاطب ہوتے ہوئے اقبال اس شعر میں کہتے ہیں کہ عہد کی صبح اور شام میں گم ہو کر نہ رہ جاوَ کہ یہ عمل محض اسی دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ ایک اور دنیا بھی ہے جس میں صبح اور شام کا کوئی وجود نہیں ۔
کس کو معلوم ہے ہنگامہَ فردا کا مقام مسجد و مکتب و مئے خانہ ہیں مدت سے خموش
معانی: ہنگامہَ فردا: مستقبل کا ہنگامہ ۔
مطلب: دوسرے شعر میں کہا گیا ہے کہ مستقبل کے بارے میں وجود پذیر ہونے والے واقعات کا ادراک کس کو ہو سکتا ہے جب کہ ہمارے عہد کی مساجد ، درس گاہیں مئے خانے تو شعور سے بیگانے ہیں اور وہاں کبھی لوگوں کی جو تربیت ہوتی تھی وہ سلسلہ بھی قریب قریب ناپید ہو چکا ہے ۔ جب صورت حال یہ ہو تو مستقبل کے معاملات کا اندازہ آخر کون کر سکے گا ۔
میں نے پایا ہے اسے اشکِ سحر گاہی میں جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
معانی: اشکِ سحر گاہی: صبح اٹھ کر رو کر دعائیں کرنا ۔ جس درِ ناب: عمدہ ، خالص موتی ۔ صدف: سیپی ۔
مطلب: صبح کی عبادت و دعا کے دوران میں جو عرفان خداوندی حاصل کرتا ہوں وہ ایک ایسے گوہر نایاب کی مانند ہے جس کا وجود صدف کی آغوش میں بھی ممکن نہیں ۔
نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں چہرہ روشن ہو تو کیا جاحتِ گلگونہ فروش
معانی: چہرو روشن ہو تو کیا: باطن روشن ہو تو کیا ۔ گلگونہ فروش: چہرے کو ابٹن لگا کر سفید کرنا گویا روشن چہرہ کسی بیرونی مصنوعی رنگ سے نہیں چمک سکتا ۔
مطلب: اقبال اپنے ہم عصر دانشوروں کی مانند عہد کی تہذیب سے ہمیشہ بدظن نظر آتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ تہذیب ایک طرح کی ملمع سازی کے سوا اور کچھ نہیں چنانچہ ان کے نزدیک جب انسانی چہرہ صاف و شفاف ہو تو پھر اس کے لیے غازہ کی ضرورت نہیں ۔
صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
مطلب: اس شعر کے مطابق اگرچہ ہر دانشور ہمیشہ اپنی رائے کو صحیح جانتے ہوئے حرف آخر سمجھ لیتا ہے ۔ تاہم اس حقیقت کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ کبھی کبھی غلطی کا امکان بھی ہو سکتا ہے ۔