غزل
نہ میں اعجمی، نہ ہندی، نہ عراقی و حجازی کہ خودی سے میں نے سیکھی دو جہاں سے بے نیازی
معانی: میرا تعلق کسی وطن سے نہیں ہے ۔ مجھے میری خودشناسی و خود معرفتی نے مجھے یہ رمز سکھائی ہے کہ خودی والا کسی جغرافیائی وطنیت میں محدود نہیں ہوتا ۔ وہ نہ خود کو حجازی کہلواتا ہے اور نہ عراقی، ہندی یا ایرانی بلکہ خود کو بندہ خدا کہلاتا ہے خود کو مسلمان کہلاتا ہے ۔ رنگ ، نسل ، خون، وطن کی حد بندیوں سے وہ آزاد ہے ۔ جہاں جہاں خدا کا ملک ہے وہ اس کا ملک ہے ۔ جو خودی کا راز پا لیتا ہے وہ اس جہان سے اور آنے والے جہان سے دونوں جہانوں سے بے گانہ اور بے نیاز ہو جاتا ہے ۔ وہ سارے امتیازات مٹا کر فقط خدا کے لیے جیتا اور مرتا ہے ۔
تو مری نظر میں کافر، میں تری نظر میں کافر ترا دیں نفس شماری، مرا دیں نفس گدازی
معانی: خودی: اپنی پہچان ۔ نفس شماری: سانس کی گنتی ۔ نفس گدازی: عشق کی حرارت سے پگھلنا ۔
مطلب: مذہبی میدان میں دو طبقات ہیں ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو دین کو پیشہ بنائے ہوئے ہے اور دین بیچ کر دنیا کماتا ہے ۔ یہ علمائے سو کا طبقہ ہے ۔ ایک دوسرا طبقہ ہے جو روحانیت کا مالک ہے ۔ غلط لوگ اس میں بھی ہوتے ہیں لیکن یہاں شاعر نے صحیح روحانی لوگوں کی بات کی ہے اور دونوں طبقات کو میں اور تو کی علامتوں میں ظاہر کیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ تو سانس گننے والا ہے یعنی تیری زندگی کا مقصد سانسوں تک محدود ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے جتنی دنیا کما ہوتی ہے کما لو اور میں سانس گننے کی بجائے سانس کو گداز کئے ہوئے ہوں ۔ تیرے اندر صرف علم ہے جو ہوس پر مبنی ہے ۔ میرے اندر عشق ہے جس کی بنیاد اخلاص پر ہے ۔ اب صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ دنیا دار علما اور صوفی دین دار اور خدا آشنا علما اور صوفیوں کو کہتے ہیں کہ تم دین ہو اور جواب میں وہ یہ کہتے ہیں کہ تم بے دین ہو ۔ اسی طرح ملت کفر سازی کے فتووں کے تحت تقسیم بھی ہو رہی ہے اور مختلف طبقات میں نفرت بھی بڑھ رہی ہے ۔
تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت کہ موافقِ تدرواں نہیں دینِ شاہبازی
معانی: تدرواں : چکور ۔ رہ و رسمِ کارسازی: کام بنانے کے طریقے، جدوجہد ۔
مطلب: تو کی علامت میں علمائے سُو اور فریب کار پیروں کو کہہ رہے ہیں کہ شریعت اور دین تو بڑے بڑے بازوں کا شکار ہیں یعنی ان کے علمائے حق اور صوفیائے خدا شناس کا ہونا ضروری ہے تو شاہباز نہیں رہا بلکہ چکور بن گیا ہے تو بدلی ہوئی شریعت اور تبدیل شدہ دین ہی کے لائق ہے ۔
ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا کہ سکھا سکے خرد کو رہ و رسمِ کار سازی
معانی: دشت و در: جنگل اور بیاباں ۔ جنوں : انتہائی عشق ۔ خرد: عقل ۔
معانی: اے عالم دنیا دار اور اے صوفی حق گریز تیرے جنگل، صحرا اور بیاباں میں مجھے عشق کی وہ انتہا نظر نہیں آتی کہ جو عقل کو کام بنانے اور کامیابی کے طور طریقے سکھا سکے اور عقل نے اس زمانے میں جو کام بگاڑ رکھے ہیں وہ اپنے مقصد اور اپنے دین سے جنوں کی حد تک جذبہ تعلق کی وجہ سے سدھر سکتے ہیں لیکن افسوس ہے تو اس جذبہ سے خالی ہے ۔
نہ جُدا رہے نوا گر تب و تابِ زندگی سے کہ ہلاکیِ امم ہے یہ طریق نے نوازی
معانی: نواگر: گانے والا ۔ تب و تاب زندگی: زندگی کا سوز و ساز ۔ ہلاکی امم: قوموں کی ہلاکت ۔ طریق نے نوازی: بنسری بجانے کا طریقہ ۔
مطلب: جو بنسری بجانے والا سازندہ یا موسیقار زندگی کے سوز و ساز سے بے گانہ ہوتا ہے وہ قوموں کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے ۔ ہر شعر، ہر ادیب ، ہر موسیقار ، ہر فن کار ۔