Please wait..

خوشامد

 
میں کارِ جہاں سے نہیں آگاہ، ولیکن
اربابِ نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز

معانی: خوشامد: چاپلوسی ۔ کار جہاں : جہان کے کام ۔ اربابِ نظر: اہل نظر ۔
مطلب: اس نظم میں عام خوشامد کی بات نہیں ہے بلکہ سیاسی خوشامدیوں کی بات کی ہے ۔ جب انگریز نے برصغیر کے باشندوں کی رائے کے ذریعے صوبائی اور مرکزی اسمبلیاں منتخب کرائیں تو بطور رکن کامیاب ہونے پر بیشتر اشخاص انگریزی حکومت کی خوشامد کرنے لگے کہ ہمیں وزیر بنایا جائے یا کوئی اور مرتبہ دیا جائے ۔ یہ نظم اسی پس منظر میں لکھی گئی ہے ۔ پہلے شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ ان سیاست دانوں اور وزارت کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والوں کی طرح اگرچہ میں دنیا اور اسکے کاروبار کو اچھی طرح نہیں جانتا لیکن صاحب نظر ہونے کے اعتبار سے کار جہاں کے اور ان لوگوں کے ارادوں کے چھپے ہوئے راز مجھ پر ظاہر ہیں اور میں یہ جانتا ہوں کہ یہ کیوں حاکموں کی خوشامد کر رہے ہیں ۔

 
کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد
دستور نیا اور نئے دور کا آغاز

مطلب: جب انگریز آقاؤں کی خوشاہد کر کے اسمبلیوں کے بعض رکن وزیر بن گئے تو ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے جو اپنا دنیاوی کام نکالنے کے لیے ان وزیروں کی خوشامد کرنے میں لگ گئے ۔ اس شعر میں علامہ نے طنز کے طور پر کہا ہے کہ اے شخص تجھے بھی اگر دنیا میں کامیاب ہونا ہے تو تو بھی ان وزیروں کی خوشامد کر کیونکہ اب نیا آئین نافذ ہونے کی وجہ سے ایک نئے زمانے کا آغاز ہو گیا ہے جہاں کام خوشامد سے نکالے جاتے ہیں اور اہل اور نا اہل میں تمیز روا نہیں رکھی جاتی ۔

 
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز

معانی: اُلو: ایک پرندہ جو رات کو باہر نکلتا ہے ۔ شہباز: بڑا باز ۔ خوشامد: چاپلوسی ۔
مطلب: اس شعر میں بھی خوشامد کی اصلیت کو طنزیہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اُلو کو (جو بے وقوف بھی سمجھا جاتا ہے اور رات کے اندھیرے میں باہر نکلتا ہے ) رات کا شہباز (بلند پرواز، بے نیاز اور درویش طبع جانور) کہہ دے تو کیا یہ خوشامد ہو گی یا کچھ اور ۔ حقیقت میں یہی خوشامد ہے کہ لوگ اپنا کام نکالنے کے لیے الووَں کو شہباز کا درجہ دے دیتے ہیں اور یہ بات آج کے سیاسی دور میں تو عروج پر ہے ۔