نادر شاہ افغان
حضورِ حق سے چلا لے کے لُولوئے لالا وہ ابر جس سے رگِ گل ہے مثلِ تار نفس
معانی: نادر شاہ افغان: 1929ء میں بچہ سقہ کی بغاوت دور کر کے شاہِ افغانستان بنا ۔ لولوئے لالا: بہترین موتی ۔ ابر: بادل ۔ رگِ گل: پھول کی رگ ۔ مثلِ تارِ نفس: سانس لیتی ہوئی ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے نادر شاہ کے کردار کو ایک ایسے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے جو اپنی جراَت اور حریت پسندی کے سبب ان کے نزدیک رب العزت کی بخشش و کرم کا حامل بھی بنا اور اپنی قوم کے لیے سرخروئی کا سبب بھی بنا ۔ اس شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ خالق ایزدی کی رضا سے جس لمحے زمین پر برسنے کے لیے اپنے دامن میں موتیوں کی مانند پانی کے بے شمار قطرے لے کر روانہ ہوا تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کے وجود سے پھولوں میں زندگی دوڑنے لگے گی ۔
بہشت راہ میں دیکھا تو ہو گیا بے تاب عجب مقام ہے، جی چاہتا ہے جاؤں برس
معانی: بہشت : جنت ۔
مطلب: اسی پرواز کے دوران جب اس نے اپنے راستے میں بہشت کے جانفزا نظاروں کو دیکھا تو ان کو دیکھ کر اس طرح سے مضطرب ہوا کہ اس کا جی چاہا کہ اسی مقام پر برس جائے ۔
صدا بہشت سے آئی کہ منتظر ہے ترا ہرات و کابل و غزنی کا سبزہَ نورس
معانی: منتظر: انتظار کر رہا ہے ۔ ہرات و کابل و غزنی: افغانستان کے صوبے ۔ سبزہَ نورس: وہ سبزہ جو نیا نیا اگا ہو ۔
مطلب: لیکن یوں لگتا تھا کہ بہشت نے اس کی نیت کو بھانپ لیا اور یوں گویا ہوئی کہ بے شک میرے وسیع و عریض دامن کو قدرت نے انتہائی حسین و جمیل نظاروں سے بھر دیا ہے تاہم میرا مشورہ یہ ہے کہ تو آگے بڑھ اور زمین پر جا کر ہرات و کابل اور غزنی کا نظارہ بھی کر کہ نادر شاہ افغانی کے زیر اقتدار یہ علاقے مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت سبزہ زار میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے سبزہ زار تو نے پہلے کہیں نہ دیکھے ہوں گے ۔ لہذا برسنا ہے تو وہاں جا کر برس ۔
سرشکِ دیدہَ نادر بہ داغ لالہ فشاں چناں کہ آتشِ او را دِگر فرو نہ نشاں
مطلب: نادر کی آنکھوں کے آنسو لالہ کے داغ پر اس طرح بکھیر کہ پھر اس کی آگ کبھی بجھنے نہ پائے ۔ یعنی وہاں نادر شاہ افغانی کے جذبوں میں زندگی کی جو حرارت اور جوش موجود ہے وہ پوری افغان قوم کے دلوں میں موجزن ہو جانا چاہیے تا کہ وہ کسی مرحلے پر بھی مایوس و افسردہ نہ ہو سکے ۔ نادر شاہ کے دل میں قوم کا جو درد موجود ہے اور جس طرح وہ اس کو بیدار کرنا چاہتا ہے یہ درد اٖفغانوں کے دلوں میں منتقل ہونا چاہیے ۔