غزلیات
اے بادِ صبا کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا قبضے سے اُمت بے چاری کے، دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی
معانی: کملی والا: رسول اللہ ﷺ ۔ دیں قبضے سے جانا: یعنی مسلمانوں کا مذہب سے دور ہونا ۔ دنیا قبضے سے جانا: آزادی سے محروم ہو جانا ۔
مطلب: اے بادِ صبا آنحضرت کو جن کو کملی والے سے موسوم کیا جاتا ہے ازراہ کرم یہ پیغام پہنچا دینا کہ حضور کی امت کے ہاتھوں دین تو خیر گیا ہے اب دنیا بھی چلی گئی یعنی امت مسلمہ کی بے عملی کے سبب اس پر ہر شعبے میں زوال کی کیفیت ہے ۔
یہ موجِ پریشاں خاطر کو پیغام لبِ ساحل نے دیا ہے دُور وصالِ بحر ابھی، تو دریا میں گھبرا بھی گئی
معا نی: موج: لہر ۔ پریشاں خاطر: جس کا دل بے چینی کا شکار ہو ۔ وصال: ملاپ ۔ بحر: سمندر ۔
مطلب: دریا میں جو ایک موج مضطرب تھی اس کو ساحل نے یہ پیغام دیا کہ ابھی سمندر تو بہت دور ہے اور تو اس معمولی سے دریا میں ہی پریشانی سے ہم کنار ہو رہی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ انسان آزمائش کی ابتدائی گھڑی میں ہی پریشان ہو جائے تو پھر وہ منزل تک کیسے پہنچ سکے گا ۔
عزت ہے محبت کی قائم اے قیس! حجابِ محمل سے محمل جو گیا، عزت بھی گئی ، غیرت بھی گئی ، لیلا بھی گئی
معانی: قیس: مجنوں ۔ حجابِ محمل: کجاوے کا پردہ، لیلیٰ کا پردے میں بیٹھنا ۔
مطلب: اے قیس! تیری محبت کا بھرم محض اس لیے قائم ہے کہ حسن پردہ نشیں ہے اور اگر یہ پردہ ہی نہ رہا تو پھر تیری عزت و غیرت اور لیلیٰ کا ٹھکانا کہا ہوگا ۔ مراد یہ ہے کہ عشق میں جو کشش ہوتی ہے وہ محض حجاب کے سبب ہی ہوتی ہے ۔ اگر یہ حجاب ختم ہو کر رہ جائے تو پھر عشق کی تمام تر کشش بھی ختم ہو جاتی ہے ۔
کی ترک تگ و دو قطرے نے، تو آبروئے گوہر بھی ملی آوارگیِ فطرت بھی گئی، اور کشمکشِ دریا بھی گئی
معانی: ترک کرنا: چھوڑ دینا ۔ تگ و دو: بھاگ دوڑ، جدوجہد ۔ آبروئے گوہر: موتی کی عزت، یعنی موتی بنا ۔ آوارگی: بے مقصد ادھر اُدھر گھومناپھرنا ۔ کشمکشِ :کھینچا تانی ۔
مطلب: پانی کا قطرہ اپنی تمام تر جدوجہد کے بعد جب ایک مقام پر ساکن ہو گیا تو گوہر آبدار بننا اس کا مقدر ہوا ایک معمولی سا بلبلہ جدوجہد کے بعد بلند مرتبے پر فائز ہو گیا ۔ چنانچہ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اس کی فطرت میں آوارگی کا جو عنصر موجود تھا وہ بھی ختم ہو گیا اور دریا کے ساتھ جو کشمکش تھی وہ بھی اختتام کو پہنچی ۔
نکلی تو لبِ اقبال سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی
معانی: صدا: آواز، شاعری
مطلب: ہر چند کہ اقبال کے لبوں سے یہ امید افزا صدا بلند ہوئی ہے ۔ تاہم نہ جانے اس کا محرک کون ہے ۔ پھر بھی یہ صدا محفل کو تڑپا گئی اور سننے والے بھی پرسکون ہو گئے ۔