پھول کا تحفہ عطا ہونے پر
وہ مستِ ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے
معانی: مستِ ناز: اپنی اداؤں ، ناز نخرے میں ڈوبی ہوئی ۔
مطلب: اس نظم کے مطالعے سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے یہ نظم اپنی اس محبوبہ کے لیے لکھی تھی جس نے انہیں تحفہ کے طور پر پھول بھیجے تھے ۔ یہ امر ہمیشہ سے صیغہ راز میں ہی رہا کہ ان کی یہ محبوبہ کون تھی ۔ چنانچہ نظم کے اس پہلے شعر میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے ناز و انداز میں مست رہنے والی محبوبہ جب کبھی پھول توڑنے کے لیے باغ میں جا نکلتی ہے تو اس کے لیے وہاں موجود ہر کلی کے لبوں سے دعائیں نکلتی ہیں
الہٰی پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے کلی سے رشکِ گلِ آفتاب مجھ کو کرے
معانی:انتخاب کرنا: چننا ۔ رشکِ گلِ آفتاب: آٖفتاب کے پھول یعنی سورج کے لیے رشک کا باعث، سورج سے بہتر ۔
مطلب: اور اس کے ساتھ ہی وہ اس امر کی تمنا کرتے ہوئے رب ذوالجلال سے دعا کرتی ہے کہ یہ دوسری کلیوں کوچھوڑ کر میرا انتخاب کرے ۔ اس صورت میں میرا وجود پھول تو الگ رہے سورج کے لیے بھی باعث رشک بن جاؤں ۔
تجھے وہ شاخ سے توڑیں زہے نصیب ترے تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے
معانی: زہے نصیب: کیا خوش بختی کی بات ہے ۔ رقیب: مراد دوسرے پھول ۔ گلزار: باغ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال کلی سے براہ راست مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ یہ تیری خوش قسمتی ہے کہ میرا محبوب تجھے شاخ سے توڑ لیتا ہے ۔ اس کے اس عمل پر باغ میں جو کلیاں تیری رقیب تھیں وہ یقیناً حسد کے مارے تڑپ کر رہ گئی ہوں گی ۔
اٹھا کے صدمہَ فرقت وصال تک پہنچا تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا
معانی: صدمہ اٹھانا: دکھ جھیلنا ۔ وصال: محبوب سے ملاقات ۔ جوہر: خوبی ۔ کمال: انتہا ۔
مطلب: ہر چند کہ تجھے شاخ سے جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا لیکن میرے محبوب کے ہاتھوں کے لمس سے تیری عظمت انتہائی کمال تک پہنچ گئی ۔
مرا کنول کی تصدق ہیں جس پہ اہلِ نظر مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر
معانی: کنول: پانی میں کھِلنے والا سفید پھول ۔ تصدق: واری، قربان ۔
مطلب: اے کلی! اس حقیقت کو جان لے کہ میری محبوب بھی کنول کے پھول کی مانند ہے جس کو دیکھتے ہی ہر شخص اس کا والہ و شیدا بن جاتا ہے ۔ اور میری جوانی یقیناً اس پر فخر کرتی ہے ۔
کبھی یہ پھول ہم آغوشِ مدعا نہ ہوا کسی کے دامنِ رنگیں سے آشنا نہ ہوا
معانی: ہم آغوش مدعا: مراد مقصد، آرزو پا لینے والا ۔ دامنِ رنگیں : خوبصورت پلو ۔
مطلب: حقیقت یہ ہے کہ کبھی اس کی خواہش کی تکمیل نہیں ہو سکی نا ہی وہ کسی کے دامن رنگیں سے اب تک ہم آغوش ہو سکا ہے ۔
شگفتہ کر نہ سکے گی کبھی بہار اسے فسردہ رکھتا ہے گل چیں کا انتظار اسے
معانی: شگفتہ کرنا: کھِلنا ۔
مطلب: اس کنول کے پھول کو کبھی بہار یعنی خوشی راس نہ آسکے گی ۔ وہ تو ہمیشہ کسی گلچیں کا منتظر رہتا ہے ۔