Please wait..

موسیقی

 
وہ نغمہ سردیِ خونِ غزل سَرا کی دلیل
کہ جس کو سُن کے ترا چہرہ تابناک نہیں

معانی: غزل سرا: غزل گانے والا ۔ تابناک: روشن ۔
مطلب : وہ غزل گانے والا کہ جس کی غزل کو سن کر سننے والے کے چہرے پرا س کے اندرونی جذبات کی گرمی کی روشنی ظاہر نہ ہو تو سمجھئے کہ اس غزل گانے والے کا خون سرد ہے ۔ وہ غزل جو دل کی گہرائی اور پارے جوش و جذبہ عشق کے ساتھ نہ گائی جائے وہ سننے والے کے جذبات کو ہی نہیں خون کو بھی سرد کر دیتی ہے ۔ موسیقی وہ ہونی چاہیے جس سے سننے والے کے دل میں حرارت پیدا ہو اور اس حرارت کی چمک دمک اس کے چہرے سے بھی ظاہر ہو ۔

 
نوا کو کرتا ہے موجِ نفس سے زہر آلود
وہ نَے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں

معانی: نوا: آواز ۔ موجِ نفس: سانس کی لہر ۔ زہر آلود: زہر سے بھرا ہوا ۔ نے نواز: بانسری بجانے والا ۔ ضمیر : دل، اندرون ۔
مطلب: جس طرح شعر کو نغمے کے روپ میں ڈھالنے کے لیے گانے والے کے خون کا گرم ہونا ضروری ہے اسی طرح بانسری بجانے والا یا کوئی اور ساز بجانے والا یا کوئی موسیقار اگر اپنے اندروں اور دل کے اعتبار سے پاکیزہ نہیں ہے تو اس کے ساز کی آواز جو وہ اپنی سانسوں یا پھونک مارنے کے ذریعے سے نکالے گا، سننے والے کے خون میں زہر بھر دے گی ۔ اس لیے ضروری ہے کہ موسیقار پاک ضمیر ہو اور خلوص اور عشق کے خمیر سے بنا ہوا ہو ۔

 
پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں 
کسی چمن میں گریبانِ لالہ چاک نہیں

معانی: لالہ زار: وہ باغ جہاں لالے کے پھول اگتے ہیں ۔ لالے کے پھول کو علامہ نے عشق کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے لالے کے پھول کی علامت سے مضمون ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے مشرق اور مغرب کے وہ سارے لالہ زار دیکھے ہیں جہاں موسیقار اور گانے والے اپنی نوا سے دوسروں کو بہلاتے ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ ان کی نوا سے کسی ایک لالے کے پھول کا گریبان بھی چاک نہیں ہوا یعنی اس میں مستی اور جنون کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی ۔ اس کا سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ آج کل کے موسیقار چاہے وہ شعر گانے والے ہو یا ساز بجانے والے ہوں اپنے اندر عشق کی گرمی اور اخلاص کی حرارت نہیں دیکھتے ۔ ان کی نواؤں کو سن کر کسی کے دل میں سوز پیدا نہیں ہوتا بلکہ الٹے دل سرد ہو جاتے ہیں ایسی موسیقی سے بچنا لازمی ہے ۔