Please wait..

رباعیات
(۱۳)

 
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر

معانی: مثل موج: لہر کی مانند ۔ خودی: اپنی پہچان ۔
مطلب: خودی، اپنی معرفت حاصل کرنے اور پھر اس کے درجہ و مرتبہ کو ظاہر سے ظاہر تر کرنے کے کئی مرحلے اور صورتیں ہیں ۔ ان مراحل اور صورتوں کو علامہ نے ایک دریا کی علامت میں بند کیا ہے ۔ انھوں نے دریا سے کائنات مراد لی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی خودی کو اجاگر کرنے اور اس کے ظہور خارجی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ دریائے کائنات میں لہروں کی مانند ابھرو مرا د ہے اس کی عناصر اور قوتوں کو مسخر کرو ۔

 
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر

مطلب: دوسری صورت یہ ہے کہ اس دریا کے اندر اتر کر دیکھو کہ اس میں کیا ہے اور اس سے استفادہ کرو ۔ مراد ہے کہ اس کائنات کے ذرات کے پیچھے جو خالق کی صفات اور اسما کا نور موجود ہے اسے دیکھو ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کائنات سے بالاتر ہو کر جہان روح کی سیر کرو اور روح کی بالیدگی کے اسباب پید ا کرو ۔ نفس کے خلاف جہاد کر کے دل کو غیر اللہ کے بتوں سے خالی کر دو ۔ غرض کہ مسلمان کے لئے لازم ہے کہ ہر طریقے سے اپنے اندر موجود خودی کی قوتوں کو خارج میں ظاہر کرے اور دریائے کائنات کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ لے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دریا کی مرضی اس پر مسلط ہو جائے گی اور وہ اپنی لہروں میں جس طرح پسند کرے گا اسے ڈبوتا رہے گا ۔ آج مسلما ن کے زوال کا یہی سبب ہے کہ اسے اپنی معرفت حاصل نہیں ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ کن صلاحیتوں کا مالک ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر کیا جو ہر رکھے ہیں اور اسے کس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے ۔