رباعی (16)
سوارِ ناقہ و محمل نہیں میں نشانِ جادہ ہوں ، منزل نہیں میں
مری تقدیر ہے خاشاک سوزی فقط بجلی ہوں میں ، حاصل نہیں میں
مطلب: ناقہ: اونٹنی ۔ محمل: کجاوہ، جس میں اونٹ کی سواری بیٹھتی ہے ۔
مطلب: جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں نہ کوئی والا جاہ ہوں جو ناقہ محمل سے ہٹ کر قدم نہیں رکھتا نا ہی میری حیثیت کسی منزل کی سی ہے ۔ اس کے برعکس میں تو ایک نشان راہ کے مانند ہوں ۔ میں تو برق رخشندہ کے مانند ہوں جو خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ۔
رباعی (17)
ترے سینے میں دم ہے، دل نہیں ہے ترا دم گرمیِ محفل نہیں ہے
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
مطلب: اس رباعی میں انسان کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تیرے سینے میں سانس تو موجود ہے مگر دل نہیں ہے اور سانس بھی ایسا ہے کہ اس سے کسی محفل میں گرمی اور ہنگامہ پیدا نہیں ہوتا ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تو عقل و دانش کا پجاری ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر قدم نہیں رکھ سکتا ۔ چنانچہ اگر تو نے اپنے مقصد کو پانا ہے تو عقل کے مراحل سے آگے گزر کر سوچ ۔ کہ عقل تو محض راہ دکھانے والے ایک معمولی چراغ کے مانند ہے ۔ یہ کوئی منزل کی حیثیت تو نہیں رکھتی جب کہ ناداں لوگ عقل کو ہی حرف آخر سمجھ لیتے ہیں ۔
رباعی (18)
ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے تو فروغِ دیدہَ افلاک ہے تو
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حور کہ شاہینِ شہِ لولاک ہے تو
مطلب: تجھ میں جو جوہر پوشیدہ ہے وہ پاک و پاکیزہ ہے اور نور خداوندی سے کشید کیا ہوا ہے ۔ یہی وہ جوہر ہے جس کے نور سے آسمانوں کی درخشانی اور تابناکی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ تو تو خدائے عزوجل کا ایسا شاہیں ہے حور اور فرشتے بھی جس کے شکار ہوتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ خدا نے انسان کو تمام مخلوقات سے افضل و برتر پیدا کیا ہے ۔
رباعی (19)
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
صفیں کج، دل پریشاں ، سجدہ بے ذوق کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے
مطلب: اس رباعی میں اقبال مسلمانوں کی صورت حال پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں نہ جذبہ رہا نہ غیرت ! نا ہی کچھ کر گزرنے کا جنون برقرار ہے ۔ آج کے مسلماں کی کیفیت تو یہ ہے کہ ان کی صفوں میں نفاق نے بیج بوئے ہوئے ہیں جس کے سبب پریشاں حالی ان کا مقدر بن کر رہ گئی ہے ۔ حد تو یہ ہے خالق حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ان سجدوں میں ذوق اور خلوص ناپید ہوتا ہے اس ساری صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل عشق حقیقی کے جذبے سے خالی ہو چکے ہیں ۔
رباعی (20)
خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا مقام رنگ و بو کا راز پا جا
برنگ بحر ساحل آشنا رہ کف ساحل سے دامن کھینچتا جا
مطلب: اس رباعی میں اقبال مسلمانوں کو دعوت عمل دیتے ہوئے ایک لاءحہ عمل بھی تجویز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیرے پاس خودی کا جو حربہ ہے وہ اس قدر کارآمد اور طاقتور ہے کہ اس کی مدد سے تو پوری دنیا پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی کے ذریعے ظاہر و باطن کے سارے بھیدوں سے آگہی بھی حاصل کر سکتا ہے ۔ سمندر کے مانند کناروں سے تیرا رابطہ تو بے شک برقرار رہنا چاہئے لیکن ساحل پر لہریں جو جھاگ اڑاتی ہیں ان سے اپنے دامن کو بچا کے رکھ ۔ مراد یہ ہے کہ ایک مکمل انسان کی تعریف یہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا فانی ہے وہ تا زندگی اس میں عملی جدوجہد سے کام لے لیکن خود کو علائق دنیوی سے محفوظ رکھے ۔