Please wait..

اذان

 
اک رات ستاروں سے کہا نجمِ سحر نے
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار

مطلب: اقبال نے ہر موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی فکر اور حکمت و دانش کے حوالے سے جو جادو جگایا ہے اس پر بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے لیکن اس کی تمام تر خیال آرائی اور فکر کا بنیادی کردار ہمیشہ اور ہمیشہ انسان ہی رہا ہے ۔ اس نظم کا خیال اذان اور شب بیداری جیسے معاملات کا احاطہ کیے ہوئے ہے تاہم اس میں دلچسپی چاند اور ستاروں کے مکالمات سے پیدا کی گئی ہے ۔ اقبال نے اپنے موضوع کے حوالے سے اظہار کے لیے جو فضا تخلیق کی ہے اس میں چاند اور بعض ستارے اہم کردار بن کر سامنے آتے ہیں تاہم اس موضوع کا مرکز و محور انسان ہی ہے ۔ اس شعر کے مطابق ایک شب ستارہ صبح دوسرے ستاروں سے استفسار کرتا ہے کہ باری تعالیٰ نے ہمارے لیے تو شب بیداری مقدر کر دی ہے رات کی تاریکی میں ہماری روشنی پوری کائنات کو جگمگاتی رہتی ہے لیکن انسان کو جو رتبہ بلند عطا کیا گیا ہے کیا تم نے اسے بھی کبھی اپنی طرح ساری ساری رات تک بیدار اور مصروف کار دیکھا ہے

 
کہنے لگا مریخ ادا فہم ہے تقدیر
ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار

معانی: چھوٹے سے فتنے: مراد آدمی ۔
مطلب: سب سے پہلے ستارہ صبح کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مریخ نے کہا کہ قدرت بڑی شناس ہے ۔ انسان بلاشک و شبہ ایک چھوٹے سے فتنہ کی مانند ہے جس کا سویا رہنا ہی بہتر ہے ۔ وہ بیدار ہے تو نہ جانے کیا کیا قیامت ڈھاتا رہے ۔

 
زہرہ نے کہا اور کوئی بات نہیں کیا
اس کرمکِ شب کور سے کیا ہم کو سروکار

معانی: زہرہ: ایک اور سیارہ ۔ کرمکِ شب کور: رات کے اندھے کیڑے ۔ سروکار: تعلق ۔
مطلب: زہرہ نے یہ گفتگو سنی تو بولا تمہارے پاس اظہار خیال کے لیے کیا کوئی اور موضوع نہیں ہے ۔ انسان سے ہمیں آخر کیا لینا ہے ۔ اس کی حیثیت تو ایک ایسے کیڑے کی سی ہے جو شب کی تاریکی میں بصارت سے محروم رہتا ہے پھر وہ اگر رات کو بیدار بھی رہے تو اس سے کیا حاصل ہو گا ۔

 
بولا مہِ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی
تم شب کو نمودار ہو وہ دن کو نمودار

معانی:کوکب: ستارہ ۔ نمودار: ظاہر ۔
مطلب: ستارہ صبح، مریخ اور زہرہ کا مکالمہ جس لمحے مہ کامل کے گوش گزار ہوا تو زمین سے دوسرے ستاروں کی نسبت زیادہ قربت اور انسان کی فطرت سے نسبتاً زیادہ آگاہی کے سبب وہ گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے یوں گویا ہوا کہ انسان تو عملی سطح پر زمین کو تابندہ کرنے والے ستارے کی مانند ہے ۔ تم اگر رات کے وقت چمکتے ہو تو وہ دن میں درخشاں رہتا ہے ۔

 
واقف ہو اگر لذتِ بیداریِ شب سے
اونچی ہے ثریّا سے بھی یہ خاکِ پُر اَسرار

معانی: بیداریِ شب: رات کو جاگنا ۔ ثریا: ایک اور سیارہ ۔ خاکِ پراسرار: مٹی کا پتلا انسان، چھپا ہوا ۔
مطلب: یہ جان لو کہ اگر کہیں وہ بیداریِ شب کی لذت سے آگاہ ہو جائے اور اسے پتہ چل جائے کہ رات کو جاگنے میں کیا لطف حاصل ہوتا ہے تو اس کا مرتبہ ثریا سے بھی زیادہ بلند ہو جائے ۔

 
آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار

معانی: تجلی: روشنی ۔ ثابت و سیار: سہارے کھڑے اور چلنے والے ۔
مطلب: مت بھولو کہ اس خاک کے پتلے میں ایسا پوشیدہ نور موج زن ہے کہ اگر کسی مرحلے پر اس کا ظہور ہو جائے تو تم سمیت آسمان پر چمکنے والے تمام ستارے اور سیارے اس کے سامنے ماند پڑ جائیں اور اس کے جلووں میں دفن ہو کر رہ جائیں ۔

 
ناگاہ فضا بانگِ اذاں سے ہوئی لبریز
وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دلِ کہسار

معانی: ناگاہ: اچانک ۔ فضا: کھلا ماحول ۔ لبریز: بھرا ہوا ۔ دلِ کہسار: پہاڑوں کا دل ۔
مطلب: یہ مکالمہ جاری تھا کہ ساری فضا صبح کی اذان کی آواز سے گونج اٹھی ۔ یہ ایسی گونج تھی جس سے پہاڑ بھی دہل اٹھتے ہیں ۔ گویا اس خدائی پیغام کے ساتھ انسان کو عبادت کے لیے بیدار ہونے کا حکم مل گیا اور مکالمہ کرنے والے ستارے بھی اس راز سے آگاہ ہو گئے کہ انسان کو مخلوقات میں اسی لیے اشرف قرار دیا گیا ہے کہ احکام الہٰی کے تحت سوتا ہے اور انہی کے تحت بیدار ہوتا ہے ۔