محبت
شہیدِ محبت نہ کافر نہ غازی محبت کی رسمیں نہ ترکی، نہ تازی
معانی: کافر: غیر مسلم ۔ غازی: جنگجو ۔ ترکی: ترک قوم ۔ تازی: عرب قوم ۔
مطلب: دنیا کے مختلف مفکرین اور ماہر نفسیات اس کلیے پر مکمل اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ محبت کا جذبہ دوسرے تمام جذبوں سے افضل و اعلیٰ ہے ۔ اقبال بھی اس نقطہ نظر سے متفق نظر آتے ہیں ۔ زیر تشریح نظم کے علاوہ ان کے کلام میں جہاں کہیں بھی محبت کا ذکر آیا ہے اسی حوالے سے آیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ محبت کا جذبہ عملاً تمام حدود سے متجاوز نظر آتا ہے ۔ مذہب، قوم، ملک ، نسل ، فرقہ بندی اور دوسرے عوامل سے محبت بے نیاز رہی ہے ۔ اس جذبے میں نہ عقیدہ کو دخل ہے نہ کوئی روایت اور رسم اس کی پاسداری کرتی ہے ۔ محبت کے عمل میں قربانی دینے والا نہ تو شہید ہوتا ہے نا ہی اسے کافر اور غازی جیسے خطابات سے نوازا جا سکتا ہے نا ہی کسی نسلی بنیاد پر اس کی شناخت ممکن ہے ۔
وہ کچھ اور شے ہے، محبت نہیں ہے سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی
مطلب: اس شعر میں ایک اہم راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ محمود غزنوی اور اس کے پسندیدہ غلام ایاز کے مابین جو رشتہ تھا وہ کچھ اور تو ہو سکتا ہے اسے جذبہ محبت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ۔ اس تعلق کو اقبال کے نقطہ نظر کی روشنی میں واضح کیا جائے تو بات جنس اور نفس پرستی تک جا پہنچتی ہے ۔
یہ جوہر اگر کارفرما نہیں ہے تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی
معانی: علم و حکمت: علم ۔ شیشہ بازی: شیشے کا کھیل ۔
مطلب: اس شعر میں اس امر کو واضح کر دیا گیا ہے کہ علم و حکمت میں ا گر محبت کا جوہر شامل نہ ہو تو انہیں فریب کاری اور مکاری کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ مراد یہ ہے کہ علم و حکمت عملاً انسانی بہبود ترقی کے ساتھ شعور و دانش سے ہم آہنگ ہیں ۔ تاہم یہ اسی وقت فروغ پا سکتے ہیں کہ یہ محبت کے جوہر سے آراستہ ہوں ۔ اس کے بغیر علم و حکمت بے معنی شے ہیں ۔
نہ محتاجِ سلطاں ، نہ مرعوبِ سلطاں محبت ہے آزادی و بے نیازی
معانی: محتاجِ سلطاں : بادشاہوں کا حاجت مند ۔ بے نیازی: بے پروائی ۔
مطلب: محبت کا جذبہ نہ کسی بادشاہ کا محتاج ہوتا ہے نا ہی اس کا پابند! اس کے برعکس محبت تو تمام علائق دنیوی سے آزادی اور بے نیازی کا نام ہے ۔
مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے یہ آدم گری ہے، وہ آئینہ سازی
معانی: فقر: درویشی ، غریبی ۔ اسکندری: شاہی ۔ آدم گری: انسان بنانا ۔ آئینہ سازی: شیشہ بازی ۔
مطلب: میرا فقر اور خلق خدا سے محبت کا جذبہ عملاً سکندر اعظم جیسے پرشکوہ بادشاہ کی عظمت اور جاہ و جلال سے بھی بہتر اور بلند تر ہے کہ اول الذکر میں مخلوق کی بہتری اور اس کی تربیت کا جذبہ مضمر ہے اور ثانی الذکر تصنع اور بناوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ۔ یہاں اقبال کے سکندر اور آئینہ سازی کی ضمن میں جو اشارے کئے ہیں ان کا پس منظر وہ تاریخی آئینہ ہے جو سکندر نے اسکندریہ کے مقام پر سمندر میں ایستادہ مینار میں نصب کرایا تھا کہ رات کی تاریکی میں یہاں سے گزرنے والے جہازوں کی رہنمائی ہو سکے ۔