Please wait..

فردوس میں مکالمہ

 
ہاتف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز
حالی سے مخاطب ہوئے یوں سعدیِ شیراز

معانی: مکالمہ: باہم گفتگو، بات چیت ۔ ہاتف: غیب کا فرشتہ، غیبی آواز ۔ حالی : اردو کے مشہور شاعر اور غالب کے شاگردِ خاص ۔ مخاطب ہونا: بات کرتے وقت دوسرے کو متوجہ کرنا ۔ سعدیِ شیراز: فارسی کے مشہور شاعر، گلستان اور بوستان جیسی بین الاقوامی شہرت کی مالک کتابوں کے مصنف، نام شرف الدین، لقب مصلح، تخلق سعدی ۔
مطلب: یہ نظم ایک تصوراتی مکالمے پر مبنی ہے جس کے دو کردار شیخ سعدی اور مولانا حالی ہیں ۔ منظر بہشت ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ مجھ سے ہاتف غیبی یعنی غیب سے آواز دینے والا فرشتہ نے کہا کہ اک روز بہشت میں شیخ سعدی اور مولانا حالی یکجا ہو گئے ۔

 
اے آنکہ ز نورِ گُہرِ نظمِ فلک تاب
دامن بہ چراغِ مہ و اختر زدہ ای باز

مطلب: اے وہ شخص (حالی) تو نے آسمان کو چمکانے والی اپنی شاعری کے موتی کی روشنی سے چاند اور ستاروں کا چراغ بجھا دیا ہے

 
کچھ کیفیتِ مسلم ہندی تو بیاں کر
واماندہَ منزل ہے کہ مصروفِ تگ و تاز

معانی: واماندہَ منزل: منزل سے پیچھے رہا ہوا ۔ مصروفِ تگ و تاز: بھاگ دوڑ یعنی جدوجہد میں لگا ہوا ۔
مطلب: ازراہ کرم مجھے ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ کیجیے کہ وہ عملی جدوجہد میں مصروف ہیں یا کہیں تھک کر تو نہیں بیٹھ گئے ۔

 
مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں
تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمیِ آواز

معانی: مذہب کی حرارت: اسلام کا پرجوش جذبہ ۔ فلک سوز: آسمان کو جلانے والی ۔ گرمیِ آواز: آواز میں ایسی حرارت جو دلوں کو پگھلا دے ۔
مطلب: یہ فرمائیے کہ وہ لوگ جن کی صداؤں کی حرارت و تپش سے آسمان کے فرشتے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے کیا اب ان کی کیفیت وہی ہے ۔ کیا ان میں اپنے مذہب کی حرارت باقی ہے کہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہی وہ کامرانی حاصل کر سکتے تھے ۔

 
باتوں سے ہُوا شیخ کی حالی متاثر
رو رو کے لگا کہنے کہ اے صاحبِ اعجاز

معانی: شیخ: مراد شیخ سعدی ۔ صاحبِ اعجاز: معجزہ دکھانے والا، ایسا شاعر جس کا کلام کرامت کی طرح ہے ۔
مطلب: مولانا حالی نے جس وقت شیخ سعدی کی باتیں سنیں تو ان سے متاثر ہو کر حالی کی آنکھوں میں اشک بھر آئے اور جواباً بولے! کہ صاحبِ اعجاز

 
جب پیرِ فلک نے ورق ایام کا الٹا
آئی یہ صدا، پاوَ گے تعلیم سے اعزاز

معانی: پیر فلک: بوڑھا آسمان یعنی آسمان ۔ ورق ایام کا الٹا: زمانے کے ورق بدلے یعنی انقلاب آیا ۔ صدا: آواز ۔ اعزاز: عزت، شان ۔
مطلب: حقیقت یہ ہے کہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا اور یورپ سے آ کر فرنگی مسلط ہو گئے تو یہ فطری امر ہے کہ اپنی تہذیب ، تعلیم اور زبان بھی ہمراہ لے کر آئے ۔ تو مسلم زعماَ نے سوچا کہ اب اس جدید تعلیم کو اپنائے بغیر ملت کامیابی کے مراحل طے کر سکتی ہے نہ اس معاشرے میں باوقار انداز میں بسر اوقات کر سکتی ہے ۔

 
آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی طائر دیں کر گیا پرواز

معانی: عقیدہ: مذہبی خیال، اعتقاد ۔ تزلزل: مراد تبدیلی، انقلاب ۔ طائرِ دیں کر گیا پرواز: یعنی دین سے محبت ختم ہو گئی ۔
مطلب: لیکن اس جدید تعلیم کا ردعمل یہ ہوا کہ مسلمانوں کے عقائد متزلزل ہو کر رہ گئے چنانچہ صورت یہ ہے کہ دنیاوی عز و جاہ تو کسی حد تک حاصل ہو گیا لیکن مذہب کا تصور دھندلا پڑ گیا ۔

 
دیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی ز میں گیر، ز میں تاز

معانی: ز میں گیر: ز میں پکڑنے والی، پست ۔ ز میں تاز: یعنی صرف دنیا کے مادی فائدے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے والے ۔
مطلب: اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے مولانا حالی نے کہا اگر دین باقی رہا ہو تو پھر مقاصد میں بھی بلندی پیدا ہو جاتی ہے لیکن جب دین ہی باقی نہ رہے تو نوجوانون سے کسی کار خیر کی توقع عبث ہے ۔ ان میں الحاد کے تاثرات پیدا ہو جائیں تو یہ ایک فطری امر ہے ۔

 
مذہب سے ہم آہنگیِ افراد ہے باقی
دیں زخمہ ہے، جمیعتِ ملت ہے اگر ساز

معانی: زخمہ: مضراب، لوہے کا چھلا جس سے ساز بجایا جاتا ہے ۔ جمیعت ملت: قوم کاجماعت کی صورت میں ہونا ۔
مطلب: مذہب کے طفیل ہی ملت کے افراد میں اتفاق و اتحاد برقرار رہ سکتا ہے اور اسی کے سبب ملت عملی جدوجہد کے لیے متحرک رہتی ہے ۔

 
بنیاد لرز جائے جو دیوارِ چمن کی
ظاہر ہے کہ انجامِ گلستاں کا ہے آغاز

معانی: لرزنا: ہلنا ۔
مطلب: چنانچہ یہ جان لینا چاہیے کہ کسی عمارت کی بنیاد لرز جائے تو اس عمارت کے انجام کا آغاز ہو چکا ہے یعنی ملت نے اپنے اصولوں کو چھوڑ کر خود اپنے زوال کا سامان پیدا کر لیا ہے ۔ ملت کا استحکام تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ اپنے اصولوں اور تعلیمات پر مضبوطی سے قائم رہیں ۔

 
پانی نہ ملا زمزمِ ملت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پود میں الحاد کے انداز

معانی: زمزم: کعبہ اور صفا و مروہ کے درمیان واقع چشمہ جو حضرت اسماعیل کی شیر خوارگی کے زمانے میں ، پیاس کے مارے ان کے ایڑیاں رگڑنے سے زمین سے جاری ہوا تھا اور آج بھی اس کا پانی حاجی اپنے ساتھ لاتے ہیں ۔
مطلب: تاہم اب صورت حال یہ ہے کہ جدید تہذیب کے سبب مسلم نوجوانوں نے اپنی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے تو ان کا الحاد یعنی کفر کی طرف مائل ہو جانا کوئی حیران کن بات نہیں ۔

 
یہ ذکر حضورِ شہ یثرب میں نہ کرنا
سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غماز

معانی: ذکر: بات ۔ حضور: خدمت ۔ شہِ یثرب: یعنی حضور اکرم ﷺ ۔ غماز: چغلی کھانے والا ۔
مطلب: شیخ صاحب! میں نے حقیقت آپ کے روبرو رکھ دی ہے ۔ لیکن خدا کے لئے آنحضرت کے دربار میں حاضری دیں تو اس صورت حال کا ذکر نہ کرنا ورنہ ہندی مسلمان مجھے چغل خور سمجھیں گے ۔

 
خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم

مطلب: جو کانٹا ہم نے بویا ہے اس سے کھجور کا پھل حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اس اون سے جو ہم نے کاتی ہے ریشم نہیں بنا جا سکتا ۔