اختر صبح
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا ملی نگاہ مگر فرصتِ نظر نہ ملی
معانی: اختر صبح: ایک خاص ستارہ جو صبح کے وقت طلوع اور بہت روشن ہوتا ہے ۔ فرصتِ نظر: دیکھنے کی مہلت ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال ستارہَ صبح سے مکالمہ کرتے ہیں ۔ ستارہ صبح اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خالق کائنات نے بے شک مجھے زندگی اور چمکنے کی صلاحیت تو عطا کی لیکن زندگی کے ان لمحات کو اس قدر محدود کر دیا کہ مناظر فطرت کا پوری طرح جائزہ لے سکوں ۔
ہوئی ہے زندہ دمِ آفتاب سے ہر شے اماں مجھ کو تہِ دامنِ سحر نہ ملی
معانی: آفتاب: سورج کا وجود ۔ تہِ دامنِ سحر: صبح کے پلو کے نیچے، مراد صبح کے وقت ۔ بساط: اوقات، حوصلہ ۔
مطلب: اس لیے کہ میری طلوع ہونے کے محض چند لمحات کے بعد سورج اپنی تیز کرنوں کے ساتھ برآمد ہوا جس کے نتیجے میں میرا وجود دھندلا کر رہ گیا ۔
بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی نفس حباب کا ، تابندگی شرارے کی
معانی: بساط: اوقات، حوصلہ ۔ نفس: مراد وجود ۔ حباب: بلبلا ۔ تابندگی: چمک ۔
مطلب: ثابت ہوا کہ میری حیثیت بس اتنی ہی ہے جیسے کہ ہوا کسی پانی کے بلبلے میں مقید ہو یا ایک چنگاری جو لمحے بھر کے لیے چمکے اور پھر بجھ کر رہ جائے ۔
کہا یہ میں نے کہ اے زیورِ جبینِ سحر غمِ فنا ہے تجھے، گنبدِ فلک سے اُتر
معانی: جبینِ سحر: صبح کا ماتھا ۔ غمِ فنا: مٹنے کا دکھ ۔ گنبد فلک: مراد آسمان ۔
مطلب: اقبال ستارہَ صبح کی شکایت کے جواب میں اس سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں بے شک تو صبح کی پیشانی پر جھومر کے مانند ہے اور طلوع آفتاب کے سبب تجھے اپنے فنا ہونے کا غم بھی ہے ۔سو میرا مشورہ ہے کہ آسمان سے نیچے اتر
ٹپک بلندیِ گردوں سے ہمرہِ شبنم مرے ریاضِ سخن کی فضا ہے جاں پرور
معانی: بلندیِ گردوں : آسمان کی اونچائی ۔ ہمرہِ شبنم: اوس کے ساتھ ۔ ریاضِ سخن: شاعری کا باغ ۔ جان پرور: روح کو تازہ کرنے والا ۔
مطلب: قطرہَ شبنم کی طرح میرے باغ سخن میں ٹپک پڑ کہ یہاں کی فضا بڑی پرسکون اور زندگی آمیز ہے ۔ جان لے کہ میری شاعری روح میں بالیدگی پیدا کرنے کی موجب ہے ۔
میں باغباں ہوں ، محبت بہار ہے اس کی بنا مثالِ ابد پائیدار ہے اس کی
معانی: مثال ابد: ہمیشگی کی طرح ۔
مطلب: میں ایک باغبان کی مانند ہوں اور محبت کا جذبہ میری شاعری میں بہار کی حیثیت کا حامل ہے ۔ جان لے کہ میرے گلستان سخن کو زوال نہیں اس کے برعکس اس کا وجود ہمیشگی کا حامل ہے ۔