Please wait..

نوائے غم

 
زندگانی ہے مری مثلِ ربابِ خاموش
جس کے ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریر آغوش

مطلب: اس نظم میں اقبال اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری زندگی اس رباب کے مانند ہے جو بظاہر خاموش ہے لیکن جس کے تاروں میں ہر انداز کے نغمے پوشیدہ ہیں ۔

 
بربطِ کون و مکاں جس کی خموشی پہ نثار
جس کے ہر تار میں ہیں سیکڑوں نغموں کے مزار

مطلب: اور جس کی خاموشی پر کائنات کا وہ ساز بھی نثار ہے جس کا ہر سر دل بستگی کا آئینہ دار ہے ۔

 
محشرستانِ نوا کا ہے ا میں جس کا سکوت
اور منت کشِ ہنگامہ نہیں جس کا سکوت

معانی: ا میں : امانت رکھنے والا ۔ سکوت: خاموشی ۔ منت کشِ ہنگامہ: شور شرابے کا احسان اٹھانے والا ۔
مطلب: میں جانتا ہوں کہ اس ساز کی خموشی بھی ایسی نواؤں کی مظہر ہے جو اہل دل کے سینے میں حشر برپا کر دیتی ہے ۔ اور جن کی خاموشی کسی ہنگامے کی آئینہ دار نہیں ہے ۔

 
آہ! امیدِ محبت کی بر آئی نہ کبھی
چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی

معانی: امید بر آنا: خواہش، آرزو پوری ہونا ۔ مضراب: چھلا جس سے ستار بجاتے ہیں ۔
مطلب: دکھ کی بات یہ ہے کہ میں نے محبت کی جو آرزو کی وہ کبھی شرمندہَ تکمیل نہ ہو سکی اور میرے قلب پر کبھی اس جذبے نے کوئی زخم نہیں لگایا ۔

 
مگر آتی ہے نسیمِ چمنِ طور کبھی
سمتِ گردوں سے ہوائے نفسِ حور کبھی

معانی: نسیم: صبح کی نرم ہوا ۔ چمنِ طور: طور کا باغ ۔ گردوں : آسمان ۔ نفسِ حور: حور کے سانس کی ہوا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ محبت کے جذبے سے محرومی کے باوجود کبھی کبھی طور سینا سے عشق حقیقی کی ایک لہر میرے دل کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے ۔ اس طرح آسمان کی جانب سے حوروں کے انفاس کی معطر ہوا کی مجھ تک رسائی ہو جاتی ہے ۔

 
چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مرا تارِ حیات
جس سے ہوتی ہے رہا روحِ گرفتارِ حیات

معانی: تار چھیڑنا: ساز بجانا ۔ حیات: زندگی ۔ رہا: آزاد ۔ گرفتارِ حیات: زندگی میں قید ۔
مطلب: یہ سب مل کر قدرے آہستگی کے ساتھ میری زندگی کے تار چھیڑ دیتی ہیں جس کے سبب زندگی کے دام میں گرفتار روح آزاد ہو جاتی ہے ۔

 
نغمہَ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے
اشک کے قافلے کو بانگِ درا اٹھتی ہے

معانی: نغمہَ یاس: مایوسی کی لے ۔ صدا: آواز ۔ بانگِ درا: قافلے کے روانہ ہوتے وقت گھنٹی کی آواز ۔
مطلب: اس لمحے غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی ایک دھیمی سی آواز بلند ہوتی ہے اس آواز کو سن کر میری آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے ہیں ۔

 
جس طرح رفعتِ شبنم ہے مذاقِ رم سے
میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے

معانی: رفعت: بلندی، بڑائی ۔ مذاقِ رم: مرا د اڑ جانے کا شوق ۔
مطلب: چنانچہ دیکھا جائے تو جس طرح شبنم کے مرتبے کی بلندی سفر اور حرکت سے وابستہ ہے اسی طرح مایوسی اور نامرادی میری فطرت کے لیے مہمیز کی حیثیت رکھتی ہے ۔