Please wait..

جواب شکوہ

 
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

مطلب: یہ تو ایک واضح حقیقت ہے کہ زیر تشریح نظم اقبال نے اپنی پہلی نظم شکوہ کے جواب میں کہی ۔ شکوہ میں اقبال نے جس بے تکلفانہ انداز میں رب جلیل سے مکالمہ کیا تھا اس وقت اس نظم کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا گیاتھا ۔ چنانچہ اس تاثر کو کسی حد تک زائل کرنے کے لیے جواب شکوہ لکھی ۔ اقبال نے اپنی نظم شکوہ کی اثر انگیزی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ جو بات انسان کے دل کی گہرائی سے نکلتی ہے وہ دور رس اثرات کی حامل ہوا کرتی ہے ۔

 
قدسیُ الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پہ گزر رکھتی ہے

معانی: قدسی الاصل: بنیادی طور پر پاک ۔ رفعت: بلندی ۔ گردوں : آسمان ۔
مطلب: خلوص دل سے کہی ہوئی بات وسائل نہ ہونے کے باوجود وسیع تر سطح پر تشہیر کی صلاحیت ضرور رکھتی ہے کہ یہ سچائی ہمیشہ رفعت اور بلندی پر نظر رکھتی ہے ۔ بے شک یہ بات زمین پر کہی جائے تاہم اگر اس میں وزن ہے اور صداقت ہے تو اس کی رسائی آسمان تک ممکن ہوتی ہے ۔

 
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالہَ بے باک مرا

معانی: فتنہ گر: مراد شوخ ۔ آسماں چیر گیا: یعنی آسمان سے آگے عرش تک پہنچ گیا ۔ نالہَ بے باک: خوف سے خالی فریاد مراد شکوہ ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ شکوہ میں میرا عشق اور اس کا اظہار بے شک تند و تیز سہی تا ہم سچائی پر مبنی تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ میری فریاد نے آسمان اور اس کے باسیوں تک کو ہلا ڈالا ۔

 
پیرِ گردوں نے کہا سُن کے، کہیں ہے کوئی
بولے سیارے، سرِ عرش بریں ہے کوئی

معانی: عرشِ بریں : مراد خدا کا تخت ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جب میری فریاد بلند ہوئی تو اس سے متاثر ہو کر بوڑھے آسمان نے کہا لگتا ہے قریب ہی کوئی شخص موجود ہے ۔ سیاروں کا خیال تھا کہ غالباً فریادی عرش پر موجود ہے ۔

 
چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ ز میں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی

معانی: اہل ز میں : دنیا کا باشندہ، انسان ۔ کہکشاں : چھوٹے چھوٹے بیشمار ستاروں کی ایک لمبی قطار ۔
مطلب: چاند کا استدلال یہ تھا کہ یہ تو کوئی زمین پر رہنے والا شخص ہے ۔ جب کہ کہکشاں کا خیال تھا کہ یہ شخص کہیں ہمارے اردگرد ہی چھپا ہوا ہے ۔

 
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

معانی: رضواں : جنت کا داروغہ ۔ جنت سے نکالا ہوا انساں : مراد حضرت آدم ۔
مطلب: تاہم اگر میری فریاد کو کسی حد تک حقیقت کے روپ میں دیکھا تو وہ داروغہ جنت رضوان تھا جو مجھے جنت سے نکالے ہوئے انسان سے تعبیر کر رہا تھا ۔

 
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا

معانی: راز کھلنا: بھید ظاہر ہونا ۔
مطلب: فرشتے اس امر پر حیرت زدہ تھے کہ یہ فریاد کی جو صدا ان تک پہنچ رہی ہے اس کی نوعیت کیا ہے ۔ جو لوگ عرش پر مقیم تھے وہ بھی اس راز کی تہہ تک نہ پہنچ سکے ۔

 
تاسرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا

معانی: سرِ عرش: عرش پر ۔ تگ و تاز: بھاگ دوڑ ۔ خاک کی چٹکی: مراد انسان ۔
مطلب: وہ سوچ رہے تھے کہ کیا انسان کی رسائی اب آسمان تک بھی ہو گئی ہے اور کیا خاک کی چٹکی میں وہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ اس قدر بلندی تک پرواز کر سکے ۔

 
غافل آداب سے سُکانِ ز میں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں

معانی: سُکان: جمع ساکن، رہنے والے ۔ شوخ و گستاخ: شریر اور ادب نہ کرنے والے ۔ پستی: نیچائی، زمین، دنیا ۔ مکیں : رہنے والے ۔
مطلب: ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہے تو ماننا پڑے گا کہ ساکنان زمین آداب محفل سے آگاہی نہیں رکھتے ۔ اتنی پستی پر قیام کرتے ہوئے یہ جسارت شوخی اور گستاخی نہیں تو کیا ہے۔

 
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجودِ ملاءک یہ وہی آدم ہے

معانی: برہم: ناراض ۔ مسجود ملاءک: جسے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا ۔
مطلب: یہ فریادی تو اس قدر شوخ ہے کہ رب ذوالجلال سے بھی برہمی کا اظہار کر رہا ہے ۔ کیا یہ وہی آدم ہے جس کو کبھی فرشتے سجدہ کیا کرتے تھے ۔

 
عالمِ کیف ہے، دانائے رموزِ کم ہے
ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

معانی: عالم کیف: کیفیت، یعنی یہ کیسا ہے کے جواب سے واقف ۔ دانا: جاننے والا ۔ رموز: جمع رمز، اشارے، بھید، نکتہ ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ انسان کو زندگی کے بیشتر مسائل کا علم ہے اور وہ اپنی دانش کے ذریعے ہر شے تک رسائی بھی حاصل کر سکتا ہے ۔ تاہم لگتا یوں ہے کہ ان خصوصیات کے باوجود عجز و انکسار کے خواص سے قطعی طور پر آگاہ نہیں ہے ۔

 
ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

معانی: طاقت گفتار: بول چال کی طاقت ۔ سلیقہ: اچھا طریقہ ۔
مطلب: اس کو اپنی طاقت گفتار پر تو بے شک فخر و ناز ہے لیکن امر واقع یہ ہے کہ اس میں بات کرنے کا سلیقہ تک نہیں ۔

 
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

معانی: غم انگیز: دکھ بھرا ۔ اشک بیتاب: بے چین آنسو ۔
مطلب: فرشتوں کی یہ گفتگو جاری تھی کہ عرش بریں سے ایک بلند آواز پیدا ہوئی ۔ یقینا یہ رب ذوالجلال کی آواز تھی اس آواز نے اقبال سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بے شک تیری داستان غم و اندوز سے لبریز ہے اور تیری آنکھوں سے جو آنسو نکلے ہیں ان کی سچائی میں بھی کلام نہیں ۔

 
آسماں گیر ہوا نعرہَ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

معانی: آسماں گیر: آسمان پر چھا جانے والا ۔ نعرہَ مستانہ: پر جوش نعرہ ۔ شوخ زباں : بے خوف بات کرنے والا ۔ دلِ دیوانہ: شیدائی، عاشق دل ۔
مطلب: تیری یہ شوخ لہجے والی فریاد آسمان تک پہنچ گئی ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تو ایسے دل کا مالک ہے جو دیوانگی میں انتہا تک پہنچ گیا ہے ۔

 
شکر شکوے کو کیا حُسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے

معانی: حُسن ادا: اچھا طریقہَ بیان ۔ ہم سخن: باہم بات چیت کرنے والے ۔
مطلب: البتہ یہ ضرور ہے کہ تو نے اپنے شکوہ کا جس طرح اظہار کیا ہے اس میں شکایت کو بھی شکر کے قالب میں ڈھال دیا ہے یوں اپنے حسن کلام سے تو نے انسانوں اور خدا کے مابین مکالمہ کرایا ہے ۔

 
ہم تو مائل بہ کرم ہیں ، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں

معانی: مائل بہ کرم: مہربانی کرنے پر تیار ۔ رہرو: چلنے والا ۔
مطلب: رب ذوالجلال فرماتے ہیں کہ ہم تو ہمیشہ سے مائل بہ کرم رہے ہیں لیکن جب کوئی سائل ہی نہ ہو تو عنایات و کرم کس پر ہیں ۔

 
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گِل ہی نہیں

معانی:جوہر قابل: اہلیت، لیاقت رکھنے والا انسان ۔ گِل: مٹی ۔
مطلب: اے اقبال تو نے اپنے شکوہ میں جو گلے کیے ہیں وہ خلاف حقیقت ہیں ۔ دراصل رہنمائی اسی کی کی جاتی ہے جس میں جوہر قابل اور صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔

 
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

مطلب : اگر کسی میں حاصل کرنے کی صلاحیت ہو تو ہم اسے بادشاہوں جیسی شان و شوکت عطا کرنے کے لیے تیار ہیں اور کولمبس کی مانند جو کوئی نئی دنیا کی تلاش میں نکلے تو ہم اسے اس دنیا کی راہ بھی دکھا دیتے ہیں ۔ اس بند میں کہا گیا ہے کہ ملت مسلمہ جب خود ہی قوت عمل سے محروم ہو کر اپنی بے عملی پر انحصار کیے بیٹھی ہے تو خدا سے التفات و کرم کی کمی کا شکوہ کیسا۔

 
ہاتھ بے زور ہیں ، اِلحاد سے دل خُوگر ہیں
اُمتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبر ہیں

معانی: الحاد: مراد کفر، خدا کے وجود سے انکار ۔ خوگر: عادی ۔ پیغمبر: حضور اکرم ۔
مطلب: یہ بھی سن لے کہ اس دور کے مسلمان صرف بے عمل اور قوت تخلیقی سے محروم ہیں نہیں بلکہ ان کے دل بھی کفر و الحاد کے عادی بن چکے ہیں ۔ یہی وہ امتی ہیں جو آج اپنے پیغمبر کو رسوا کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔

 
بُت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر، اور پسر آزر ہیں

معانی: ابراہیم: حضرت ابراہیم جنھوں نے نمرود کا بت خانہ توڑا ۔ پدر: باپ ۔ آزر: حضرت ابراہیم کے والد، چچا، مراد بت تراش ۔ پسر: بیٹا ۔
مطلب: ان میں جو کبھی بت شکن ہوا کرتے تھے وہ تو جا چکے ۔ اب جو باقی رہ گئے ہیں وہ تو عملی سطح پر بت تراش واقع ہوئے ہیں ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ باپ کو ابراہیم سمجھ لو جو بت شکن تھے لیکن بیٹا آزر کی حیثیت رکھتا ہے جو بت تراش تھا ۔ ۔ یعنی تمہارے اسلاف ابراہیم کی مانند تھے جب کہ تم آزر کے مماثل ہو ۔

 
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خُم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے

معانی: بادہ آشام: شراب پینے والے، اسلام سے محبت کرنے والے ۔ خُم: مٹکا، صراحی ۔ حرم کعبہ نیا: مراد اصل کعبہ کی بجائے حکمرانوں کو سجدہ کرنا ۔ بت بھی نئے: یعنی دولت، مرتبہ سے محبت وغیرہ ۔
مطلب: اب تو کیفیت یہ ہے کہ پرانی اقدار کو فراموش کر کے نئی قدروں کو اپنا لیا گیا ہے ۔ حتیٰ کہ نئے کعبے کے ساتھ تم نے بھی خود کو اسی رنگ میں رنگ لیا ہے ۔

 
وہ بھی دن تھے کہ یہی مایہَ رعنائی تھا
نازشِ موسمِ گل لالہَ صحرائی تھا

معانی: مایہَ رعنائی: خوبصورتی، تازگی کی دولت ۔ نازش: افتخار، فخر ۔ موسمِ گل: بہار کا موسم ۔ لالہَ صحرائی: مراد آغاز اسلام کے مسلمان ۔
مطلب: وہ زمانہ فراموش نہیں کیا جا سکتا جب کہ مسلمان میری ذات کو ہی باعث فخر سمجھا کرتے تھے ۔

 
جو مسلمان تھا، اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمہارا یہی ہرجائی تھا

مطلب: اور میں ہی ان کے لیے سب کچھ تھا ۔ اس وقت جو مسلمان صفحہ ارض پر موجود تھا میرا ہی سودائی بنا پھرتا تھا ۔ اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جسے تو آج ہرجائی قرار دے رہا ہے وہی تم مسلمانوں کا محبوب ہوا کرتا تھا ۔

 
کسی یکجائی سے اب عہدِ غلامی کر لو
ملتِ احمد مرسل کو مقامی کر لو

معانی: عہد غلامی کر لینا: مراد کسی اور کو خدا بنا لینا ۔ مقامی کرنا: کسی ایک، خاص جگہ یا قوم تک محدود رکھنا ۔
مطلب: پھر بھی اگر میری صفات سے بد ظنی کا اظہار کرتے ہو تو جاوَ کسی جامد شخصیت کے ہاتھ پر بیعت کر لو اور آنحضرت کی نبوت کو محدود کر کے کسی ایک مقام سے وابستہ کر لو ۔

 
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے، ہاں نیند تمہیں پیاری ہے

معانی: صبح کی بیداری: صبح سویرے اٹھ کر عبادت کرنے کی حالت ۔
مطلب: تم لوگ شکایت تو کرتے ہو پر اتنا تو بتاوَ کہ نماز فجر کے لیے بیدار ہونا تمہارے لیے کس قدر تکلیف دہ امر ہو گیا ہے ۔ دراصل تمہیں ہم سے محبت نہیں بلکہ اپنی نیند ہی تمہیں پیاری ہے ۔

 
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو کہ یہ آئینِ وفاداری ہے

معانی: طبعِ آزاد: مراد مذہب سے بے نیاز مزاج ۔ قیدِ رمضاں : روزوں کی پابندی ۔ آئینِ وفاداری: ساتھ نبھانے ، حقِ دوستی کرنے کا دستور ۔
مطلب: پھر تم لوگ اس قدر آزاد طبع ہو چکے ہو کہ تمہیں رمضان کے روزے بھی ایک مصیبت نظر آتے ہیں اب یہ بتاوَ کہ ان حالات کے پیش نظر مجھ سے وفاداری کا یہی انداز رہ گیا ہے ۔

 
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں ، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

معانی: جذب باہم: ایک دوسرے کی کشش ۔ محفلِ انجم: مراد ستاروں کی گردش کا نظام جو اس کشش سے قائم ہے ۔
مطلب: جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ قوم مذہب کی بنیاد پر ترتیب پاتی ہے ۔ اگر مذہب نہیں تو وہ قوم ہی نہیں ۔ تم لوگوں کی حیثیت بھی بے معنی ہے ۔ اس کی مثال ستاروں سے دی جا سکتی ہے کہ یکجا ہو کر وہ ایک جھرمٹ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔

 
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تُم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو

معانی: پروئے نشیمن: مراد وطن کی فکر ۔
مطلب: امر واقع یہ ہے کہ جن کو دنیا میں رہتے ہوئے کوئی فن اور ہنر نہیں آتا وہ تم لوگ ہو ۔ جس قوم کو اپنے گھر کی پروا نہیں ہے کہ وہ کیسا ہے کس حال میں ہے وہ قوم تم جیسے لوگوں سے ہی عبارت ہے ۔

 
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ، وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو

معانی: خرمن: غلے کا ڈھیر ۔ اسلاف: سلف کی جمع، پرانے بزرگ ۔ مدفن: قبر ۔
مطلب: تمہارے نشیمن پر تو بجلیاں بھی بڑی آسانی سے گر سکتی ہیں یعنی تم اس قدر کمزور واقع ہوئے ہو کہ دشمن کسی دقت کے بغیر تمہیں زیر کر سکتا ہے ۔ اور تو اور تم لوگ اپنے اسلاف کے مقبروں کو بھی بیچ کھاتے ہو ۔

 
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے، جو مل جائیں صنم پتھر کے

معانی: نکو نام: اچھے نام والا ۔ قبروں کی تجارت: مزاروں کے متولیوں کا مریدوں سے نذرانے وصول کرنا ۔
مطلب: ذرا غور تو کرو کہ جب تم اس عمل میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تو تمہیں بت فروشی میں کیا عار محسوس ہو گا ۔

 
صفحہَ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے

معانی: صفحہَ دہر: مراد زمانہ ۔
مطلب: مجھے کم از کم ان سوالات کا جواب تو دو کہ اس دنیا سے کفر و باطل کا نشان مٹانے والا کون تھا پھر یہ بھی بتاوَ کہ دنیا بھر کے انسانوں کو غلامی سے نجات کس نے دلوائی ۔

 
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے

معانی: جبینوں سے بسانا: سجدے، عبادت کرنا ۔ سینوں سے لگانا: مراد پورا پورا احترام کرنا ۔
مطلب: پھر یہ بھی بتاوَ کہ حرم کعبہ کو سجدوں سے آباد کس نے کیا آخری بات یہ کہ وہ کون لوگ تھے جنھوں نے میرے بھیجے ہوئے صحیفے یعنی قرآن کو اپنے سینوں سے لگا کر رکھا ۔

 
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

معانی: ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا: غفلت، بے عملی کی زندگی گزارنا ۔
مطلب: بے شک اس سارے عمل کے ذمہ دار تمہارے اسلاف ہی تھے مگر ان کے مقابلے میں تم تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے مستقبل کے منتظر ہو اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔

 
کیا کہا بہرِ مسلماں ہے فقط وعدہَ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

معانی: بہرِ مسلمان: مسلمانوں کے لیے ۔ وعدہَ حور: جنت کی حور کا وعدہ ۔ بے جا: بے موقع ۔
مطلب: یہ تم نے ہی شکایت کی ہے کہ ہم نے مسلمانوں کو محض وعدہَ حور پر ہی ٹال رکھا ہے ۔ مگر سوچو کہ اگر کوئی شخص بے جا شکوہ بھی کرتا ہے تو اس کے لیے بھی تہذیب و شعور درکار ہوتے ہیں ۔

 
عدل ہے فاطرِ ہستی کا اَزل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

معانی: فاطرِ ہستی: کائنات کو پیدا کرنے والا، خدا ۔ ازل سے: کائنات سے بھی پہلے ۔ مسلم آئیں : مراد اسلامی اصولوں پر عمل کرنے والا ۔ قصور: جمع قصر، محل ۔
مطلب: اس کائنات کو پیدا کرنے کے بعد ہم نے تو ازل سے ہی اپنا وطیرہ عدل و انصاف بنا رکھا ہے چنانچہ اگر کافر بھی مسلمانوں کے طور طریقے اختیار کر لیں تو عدل و انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ ان کو حور و قصور سے نوازا جائے ۔ ان پر کسی دوسرے کی اجارہ داری تو نہیں ہے ۔

 
تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوہَ طور تو موجود ہے، موسیٰ ہی نہیں

معانی: چاہنے والا: مراد اچھے عمل کر کے حق دار بننے والا ۔ جلوہَ طور: خدا کا جلوہ جو حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر نصیب ہوا ۔
مطلب: تمہارے طرز عمل کے پیش نظر لگتا یوں ہے کہ تم میں دراصل حوروں کو چاہنے کی خواہش موجود نہیں ہے ۔ بالفاظ دگر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کوہ طور کا جلوہ تو اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس کو دیکھنے کے لیے موسیٰ موجود نہیں ۔

 
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی، ایمان بھی ایک

معانی: منفعت: فائدہ ۔
مطلب: اے مسلمانو! تمہاری جو قوم ہے اس کا نفع نقصان بھی سب کے لیے یکساں ہے ۔ سب کا نبی بھی، دین بھی اور اسلام بھی ایک ہی ہے ۔ ان کے حوالے سے کسی فرقے یا قبیلے میں امتیاز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

 
حرم پاک بھی ، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک

مطلب: تمہارا تو خانہ کعبہ بھی سب کے لیے ایک ہی ہے ۔ پالنے والا اور قرآن بھی ایک ہی ہے ۔ یہ کتنی بڑی بات ہوتی جو مسلمان سب کے سب ایک ہی ہوتے ۔

 
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

معانی: فرقہ بندی: فرقہ پرستی ۔ ذاتیں : مراد ذات برادری کا تعصب ۔ پنپنا: پھلنا پھولنا ۔
مطلب: جب کہ وہ تو گروہ در گروہ بٹے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ ان کے نفع نقصان کے علاوہ نبی، دین حرم پاک، خدا اور قرآن سب کے لیے ایک ہی ہے ۔ اس کے باوجود ملت اسلامیہ میں کہیں تو لوگ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور کہیں ذاتوں میں تقسیم ہو گئے ہیں َ ذرا یہ تو بتاوَ کہ کیا انہی حالات میں کوئی قوم پنپ سکتی ہے ۔

 
کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار

معانی: تارک: چھوڑنے والا، عمل نہ کرنے والا ۔ آئینِ رسولِ مختار: مراد شریعت محمدی ۔ معیار: کسوٹی ۔
مطلب : پیغمبر اسلام کے دینی اصولوں کو یہ بتاوَ ترک کرنے والا کون ہے کون ہے جو ذاتی منفعت کے لیے مصلحت کیشی کا شعار اپنائے ہوئے ہے ۔

 
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار
ہو گئی کس کی نگہِ طرزِ سلف سے بیزار

معانی: اغیار: غیر کی جمع، یعنی غیر مسلم قو میں ۔ طرزِ اسلاف: پرانے بزرگوں کے طور طریقے ۔
مطلب: غیر مسلموں کی بدعتوں نے کس کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ اس نے ایک طرح سے اپنا عقیدہ شمار کر لیا ہے اور کس کا دل ہے جو بزرگوں کے طرز عمل سے بیزار ہو چکا ہے ۔

 
قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں

معانی: سوز: عشق کی حرارت ۔ پاس: لحاظ ۔
مطلب: سچ پوچھو تو تم وہ لوگ ہو جن کے دل تپش سے خالی ہو چکے ہیں اور جن کی روح میں جیالوں کی طرح زندگی گزارنے کا احساس نہیں رہا ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تمہیں تو آنحضرت کے پیغام کا بھی احساس نہیں رہا یعنی تم پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو بھی بھلا بیٹھے ہو ۔

 
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب

معانی: صف آرا: نماز کی خاطر صف بندی کرنے والے ۔
مطلب: یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ مساجد کا جائزہ لیں تو اس امر کا پتہ چلے گا کہ وہاں نماز کی ادائیگی کے لیے صرف غریب طبقے کے لوگ ہی وارد ہوتے ہیں ۔

 
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب

مطلب: اگر کوئی ہمارا (خدا) کا نام لیتا ہے تو وہ بھی غریب ہی ہوتا ہے اور اگر کسی نے اپنے عمل سے تمہارا اور ملت اسلامیہ کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے تو وہ غریب ہی ہے ۔

 
امراء نشہَ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملتِ بیضا غُربا کے دم سے

معانی: ملت بیضا: روشن قوم، ملت اسلامیہ ۔
مطلب: جہاں تک دولت مند لوگوں کا تعلق ہے وہ دولت کے نشے میں ہم سے قطعاً غافل ہو چکے ہیں چنانچہ دیکھا جائے تو ملت مسلم صرف اور صرف غریب اور نادار لوگوں کے دم سے ہی زندہ ہے ۔

 
واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

معانی: واعظِ قوم: ملت کے مذہبی رہنما ۔ پختہ خیالی: اسلامی عقیدوں پر مضبوطی سے قائم رہنے کی حالت ۔ برق طبعی: تقریر میں جلد اثر کرنے والی کیفیت ۔ شعلہ مقالی: گفتگو، تقریر میں عشق کی گرمی ۔
مطلب: قوم کو جو لوگ وعظ و نصیحت کرتے رہتے ہیں دیکھا جائے تو ان میں پختہ خیالی کا فقدان ہے ۔ نہ ان کی طبیعتوں میں بجلی کی سی تڑپ ہے نا ہی گفتگو میں کسی قسم کی تاثیر باقی رہی ہے ۔ وہ شعلہ بیانی کا جوہر دیکھا جائے تو باجود ہو چکا ہے ۔

 
رہ گئی رسمِ اذاں ، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

معانی: روحِ بلالی: حضرت بلال کا سا جذبہ عشق ۔ فلسفہ: مراد خالی باتیں ہی باتیں ۔ تلقین غزالی: مشہور فلسفی اور صوفی امام غزالی کا عشق حقیقی سے متعلق درس ۔
مطلب: اس میں حضرت بلال کی سی روح اور جذبے کا عمل دخل نہیں رہا یعنی جب بلال اذان دیا کرتے تھے تو آنحضرت خود ان کے لحن کو پسند فرمایا کرتے تھے ۔ اسی طرح فلسفہ تو باقی رہ گیا لیکن امام غزالی کی طرح اس کی توجیہہ کرنے والے باقی نہیں رہے ۔

 
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے

معانی: مرثیہ خواں : دکھ کا اظہار کرنے والی ۔ صاحب اوصاف حجازی: صحیح اسلامی خوبیاں اور طور طریقے رکھنے والے ۔
مطلب: اب تو مساجد اس امر پر مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی باقی نہیں رہے یعنی وہ لوگ بھی موجود نہیں جو حجازیوں کے سے وصف رکھتے تھے ۔

 
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود

معانی: نابود: فنا ۔ تھے بھی کہیں مسلم موجود: یعنی کہیں بھی نہیں تھے ۔
مطلب: ہر طرف اس امر کا شور و غوغا عام ہے کہ اس دنیا میں جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے بحیثیت قوم اب ناپید ہو چکے ہیں جب کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ کیا کہیں کسی مقام پر مسلمان موجود بھی تھے ۔

 
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں ، جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

معانی: نصاریٰ: جمع نصرانی، عیسائی ۔ تمدن: شہری یا عام زندگی گزارنے کے طور طریقے ۔
مطلب: اس لیے کہ اے اسلام مے نام لیواوَ! دیکھا جائے تو تم وضع قطع میں تو عیسائیوں کے اور رہن سہن کے حوالے سے ہندووَں کے پیروکار نظر آتے ہو ۔ سچ پوچھو تو تم ایسے مسلمان ہو جنہیں دیکھ کر یہودی شرما کر رہ جائیں ۔

 
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاوَ تو مسلمان بھی ہو

معانی: یوں تو سید ۔ ۔: یعنی برادری اور قبیلے کے حوالے سے اپنی پہچان کرانے والے ۔
مطلب: یہ تسلیم کہ ذات پات کے حساب سے تو تم میں سید بھی موجود ہیں ، مرزا بھی افغان بھی ہیں لیکن ذرا یہ بتاوَ کہ سبھی کچھ ہونے کے باوجود کیا تم مسلمان بھی ہو ۔

 
دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوی ، لوثِ مراعات سے پاک

معانی: لوث: آلودگی، عیب، ملاوٹ ۔ مراعات: ایک دوسرے کا لحاظ(جس سے انصاف متاثر ہوتا ہے) ۔
مطلب: وہ وقت بھی تھا کہ جب خطاب کے دوران مسلمان مقرر کی تقریر صداقت اور جرات و بیباکی کی آئینہ دار ہوا کرتی تھی ۔ عدل و انصاف کے دوران ہر قسم کی رعایتوں سے گریز کرتے تھے ۔

 
شجرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نمناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستیِ فوق الادراک

معانی: شجرِ فطرت: مزاج، سرشت کا درخت، مراد مزاج ۔ نمناک: تروتازہ ۔ فوق الادراک: جس کے عظمت کو سمجھنا عقل سے باہر ہے ۔
مطلب: وہ فطری اعتبار سے اس درخت کی مانند تھی جو صدا نم آلود رہتا ہے ۔ شرم و حیا اس کے زیور تھے ۔ جہاں تک جرات و شجاعت کا تعلق ہے اس کی صلاحیتوں کا عقل و شعور تصور بھی نہیں کر سکتے ۔

 
خود گدازی نمِ کیفیتِ صہبایش بود
خالی از خویش شُدن صورتِ مینایش بود

مطلب: اس شعر میں فی الواقع آنحضرت کے بعد کا جو دور تھا اس کے اولو العزم اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ باہم ایثار سے کام لیتے تھے ۔ دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے تھے ۔ ہمیشہ ضرورت مندوں کے کام آتے اور اپنے عمل کو ذاتی مفادات سے آلودہ نہیں کرتے تھے ۔

 
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینہَ ہستی میں عمل جوہر تھا

معانی: رگِ باطل: کفر کی رگ ۔ نشتر: وہ اوزار جس سے رگ کو چھیڑ کر گندا خون نکالا جاتا ہے ۔ آئینہ ہستی: زندگی کا آئینہ ۔ جوہر: آئینے کی چمک ۔
مطلب: اس عہد میں صورت یہ تھی کہ ہر مسلمان کفر و باطل کے سینوں میں نشتر کی مانند تھا ۔ ان میں ہر ایک کے کردار میں عمل بنیادی جوہر کی حیثیت رکھتا تھا ۔

 
جو بھروسا تھا اُسے قوتِ بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈر تھا

معانی: قوت بازو: بازووَں کی طاقت، مراد جہاد ۔
مطلب: انہیں اگر کسی پر بھروسہ بھی تھا تو اپنے قوت بازو پر تھا ۔ حقیقت یہ ہے عصر موجود کے مسلمانوں کو تو محض موت سے ڈر لگتا ہے جب کہ ماضی کے مسلمان تو محض خوف خدا کے قائل تھے ۔

 
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو
پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو

معانی: ازبر: زبانی یاد ۔
مطلب: سو یہ بتاوَ کہ اگر بیٹے کو باپ کی علمیت کا ادراک نہ ہو اس صورت میں وہ کیسے باپ کا وارث بن سکتا ہے ۔

 
ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے

معانی: ذوقِ تن آسانی: آرام طلبی اور سستی کا شوق ۔
مطلب: تم میں سے ہر کوئی سہل انگار ہے اور محض عیش و آرام کی زندگی کا خواہاں ہے ۔ مجھے بتاوَ کہ تم جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہو کیا مسلمانی کا یہی انداز ہے

 
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

معانی: حیدری فقر: حضرت علی کی سی دنیاوی لالچ سے بے نیازی ۔ دولتِ عثمانی: حضرت عثمان کا سا مال و دولت ۔ کیا نسبت روحانی ہے: یعنی کوئی روحانی تعلق نہیں ہے ۔
مطلب: دیکھا جائے تو نہ تمہاری طبعیت میں حضرت علی کا سا فقر اور درویشی ہے نا ہی حضرت عثمان جیسی امیرانہ شان و شوکت ہے ۔ اس صورت میں کیا اس امر کی جوابدہی کر سکو گے کہ اپنے اسلاف کے ساتھ تمہاری کیا روحانی نسبت ہے ۔

 
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

معانی: مسلماں ہو کر: یعنی اسلام پر پوری طرح عمل کر کے ۔ تارکِ قرآن: قرآن چھوڑنے والا ۔
مطلب: جہاں تک تمہارے اسلاف کا تعلق تھا تو وہ بحیثیت مسلمان معزز و محترم رہے جب کہ تمہاری حالت یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات ترک کر کے تم دنیا میں خوا ر اور رسوا ہو رہے ہو ۔

 
تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں ، وہ خطاپوش و کریم

معانی: آپس میں غضب ناک: مراد ایکد وسرے کے دشمن ۔ خطا بین: دوسروں میں خامیاں ، غلطیاں تلاش کرنے والا ۔ خطا پوش: دوسروں کی خامیوں پر پردہ ڈالنے والا ۔
مطلب: جہاں تک تمہارا تعلق ہے تم تو آپس میں جنگ و جدل کے قائل ہو جب کہ تمہارے اسلاف ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آیا کرتے تھے ۔ تم خود بھی خطا کرتے ہو اور دوسروں کی خطاؤں کے ضمن میں متجسس رہتے ہو ۔ جب کہ تمہارے اسلاف دوسروں کی خطاؤں کو نظر انداز بھی کر دیتے تھے اور بخش بھی دیا کرتے تھے ۔

 
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اَوجِ ثریا پر مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم

معانی: اوجِ ثریا: ثریا ستارے کی سی بلندی ۔ قلبِ سلیم: مراد اسلامی جذبوں سے سرشار دل ۔
مطلب: یوں تو دنیا میں سب ہی لوگ اس امر کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ وہ انتہائی بلند مدارج پر فائز ہوں لیکن ان کے لیے ضروری صلاحیت بھی تو پیدا کرے ۔

 
تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریرِ کَے بھی
یوں ہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی

معانی: فغفور: قدیم چین کے بادشاہوں کا لقب ۔ سریر: تخت ۔ کے: قدیم ایران کا عظیم بادشاہ خسرو ۔
مطلب: جہاں تک تمہارے اسلاف کا تعلق تھا انہوں نے اپنی ہمت و جرات سے کم و پیش ساری دنیا کو تسخیر کر لیا جس کے عوض انھوں نے چین جیسے عظیم ملک کے بادشاہ کا تخت بھی حاصل کر لیا اور ایران کے تخت پر بھی قبضہ جما لیا تھا جب کہ تم تو ان کے مقابلے میں محض باتیں بنانے کے عادی ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ تم میں اسلاف کی سی حمیت نہیں رہی ۔

 
خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار
تم اخوت سے گریزاں ، وہ اخوت پہ نثار

معانی: شیوہ: طریقہ، انداز ۔ گریزاں : بھاگنے والے ۔
مطلب: تمہارا طرز عمل تو فی الواقع خود کشی کے مترادف ہے جب کہ تمہارے اسلاف بلاشبہ غیرت مند اور خوددار تھے ۔ تم لوگ بھائی چارے سے گریز کرتے ہو جب کہ وہ بھائی چارے کو انسانی رشتوں کی بنیادی اساس تصور کیا کرتے تھے ۔

 
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستان بہ کنار

معانی: گفتار سراپا: صرف باتیں ہی باتیں ۔ سراپا کردار: مکمل طور پر عملی جدوجہد کرنے والے ۔ گلستاں بن کنار: مراد دامن پھولوں سے بھرا ہوا ۔
مطلب: تم تو سراپا باتونی اور بڑبولے جب کہ وہ کلیتاً عمل کے قائل تھے ۔ تم تو ایک کلی کے لیے ترستے ہو جب کہ باغات ان کی دسترس میں تھے ۔ مراد یہ کہ تم بے عملی کا شکار ہو اور تمہارے اسلاف بلند کردار اور باعمل لوگ تھے ۔ اسی سبب وہ ساری دنیا پر مختصر عرصے میں چھا گئے ۔

 
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحہَ ہستی پہ صداقت ان کی

معانی: نقش: لکھا ہوا ۔ صفحہَ ہستی: دنیا کی کتاب ۔
مطلب: آج تک دنیا بھر کی قوموں کو ان کی داستانیں ازبر ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ان کی صداقت کے نقوش صفحہ دہر پر ثبت ہیں ۔

 
مثلِ انجم اُفقِ قوم پہ روشن بھی ہوئے
بُتِ ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

معانی: انجم: جمع نجم، ستارے ۔ افقِ قوم: قوم کا آسمان، قوم ۔ بتِ ہندی: ہندوستانی ثقافت، تہذیب ۔ برہمن ہونا: ہندووَں کے سے طور طریقے اختیار کرنا ۔
مطلب: تمہاری حالت تو یہ ہے کہ قلیل عرصے کے لیے قومی افق پر ستاروں کی طرح سے روشن ہو گئے پھر ہندوستان کو اپنا وطن تصور کر کے تم اسی کے ہو رہے اور اپنے مذہبی اور قومی تقاضوں کو قطعی فراموش کر دیا ۔

 
شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں ، دین سے بدظن بھی ہوئے

معانی: شوقِ پرواز: اڑنے کا شوق ۔ مہجورِ نشیمن: مراد وطن سے دور ۔ بدظن: دل میں بُرا خیال لانے والا ۔
مطلب: دوسرے مقامات پر جانے کے لیے پر تو لے تو گھر کو بھی تج دیا ۔ تمہارے جو جواں سال فرزند تمہاری ہی طرح بے عمل تو تھے ہی دیکھا دیکھی دین سے بدظن بھی ہو گئے ۔

 
ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

معانی: تہذیب: موجودہ طرزِ زندگی جو یورپ سے متاثر ہے ۔ بند: پابندی ۔ صنم خانہ: بتوں کا گھر، مندر ۔
مطلب: یہ وہی لوگ تھے جنہیں جدید تہذیب نے راہ سے بھٹکا دیا اور پھر مادر پدر آزادی کے جویا بن گئے ۔ حد تو یہ ہے کہ کعبہ کو چھوڑ کر انھوں نے بت خانے کو آباد کر لیا ۔ مراد یہی ہے کہ انہیں ان اسلاف کی عظمت و کردار کا پاس رہا نا ہی وہ مذہبی اصولوں اور تعلیمات کے ہی قائل رہے ۔

 
قیس زحمت کشِ تنہائیِ صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیما نہ رہے

معانی: زحمتِ کشِ تنہائی: اکیلے پن کی تکلیف اٹھانے والا ۔ بادیہ پیما: جنگلوں میں پھرنے والا ۔
مطلب: عصر موجود کے قیس کی مانند عاشق صادق ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن کسی نوع کی بھی سختی اٹھانے سے گریز کرتے ہیں ۔ شہری زندگی کو اس لیے زیادہ پسند کرتے ہیں کہ یہاں کی زندگی عیش و عشرت سے مزین ہے ۔ یہ عشق کے دعویدار صحر ا نوردی کے قریب نہیں بھٹکتے ۔

 
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے، حجابِ رُخِ لیلا نہ رہے

معانی: حجاب: پردہ ۔ رُخ: چہرہ ۔
مطلب: اس کے برعکس اس نظریے کے قائل ہیں کہ قیس تو دیوانہ تھا وہ خواہ شہر میں بودوباش اختیار کرتا یا صحرا کی ریت پھانکتا اس سے اسے کیا فرق پڑ سکتا تھا البتہ لیلیٰ کو اس عشق میں جو صعوبتیں اٹھانا پڑیں ان کا خاتمہ ضروری ہے ۔

 
گلہَ جَور نہ ہو، شکوہَ بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے ، کیوں حُسن بھی آزاد نہ ہو

معانی: گلہَ جور: ظلم و سختی کی شکایت ۔ بیداد: ظلم ۔ عہد نو: جدید دور، مغربی تہذیب کا دور ۔
مطلب: یہ نوجوان تو ایسی زندگی چاہتے ہیں جس میں مشکلات نہ ہوں جس میں عشق کی طرح حسن بھی آزاد ہو ۔

 
عہدِ نو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

معانی: آتش زن: جلا دینے والا ۔ خرمن: غلے کا ڈھیر ۔ ایمن: محفوظ ۔
مطلب: عہد نو تو ایک ایسی بجلی کی مانند ہے جو ہر کھلیان کو پھونکنے کے لیے ہر لمحے آمادہ رہتی ہے ۔ اس بجلی سے کوئی صحرا اور کوئی گلستاں محفوظ نہیں ۔

 
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملتِ ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

معانی: نئی آگ: مراد جدید دور، نئی تہذیب ۔ ملتِ ختم رسل: مراد حضور اکرم کی قوم ۔ شعلہ بہ پیراہن: جس کا لباس جل رہا ہو، نئی تہذیب میں فنا ہونے والی ۔
مطلب: اور سچ پوچھیے تو نئی تہذیب ایسی آگ کی طرح ہے جس کا ایندھن قدامت پرست اقوام کو قرار دیا جا سکتا ہے ۔ جس کے سبب نبی آخر الزماں کی امت کا پیراہن جل کر خاک ہو رہا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ جو قدامت پرست اقوام نئے زمانے کا ساتھ دینے سے عاری ہیں وہ ان کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے ۔

 
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

معانی: براہیم کا ایماں : حضرت ابراہیم کی سی ایمانی قوت کہ وہ نمرود کی آگ میں بیٹھ گئے اور بحکم خدا وہ گلزار بن گئی ۔ اندازِ گلستاں : گلزار کی سی حالت ، صورت ۔
مطلب: اس ساری صورت حال کے سبب مسلمانوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ آج بھی ان میں اگر حضرت ابراہیم جیسے پیغمبروں کا عقیدہ پیدا ہو جائے تو پھر ان کے عہد کی طرح آگ گلستان میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔

 
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی

معانی: رنگِ چمن: وطن، ملت کی صورت ۔ کوکب: ستارہ ۔ شاخیں ہیں چمکنے والی: مراد اچھے دن آنے والے ہیں ۔
مطلب:ملت مسلمہ کی جو ابتر صورت حال ہے اس کو دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہیے ۔ بے شک یہ چمن اجڑا ہوا ہے تاہم جلد ہی اس میں بہار آنے والی ہے ۔ اب یہ چمن گھاس پھونس اور غیر ضروری اشیا سے پاک ہونے والا ہے ۔

 
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل برانداز ہے خونِ شُہدا کی لالی

معانی: خس و خاشاک: کوڑا کرکٹ، مراد مسلمانوں کے لیے ناموافق حالات ۔ گلستاں : وطن ۔ گل برانداز: پھول برسانے والی،ا چھے حالات لانے والی ۔ شہدا: جمع شہید، جنھوں نے قوم کے لیے جانوں کی قربانی دی ۔ لالی: سرخی ۔
مطلب: اب یہ چمن گھاس پھونس اور غیر ضروری اشیا سے پاک ہونے والا ہے ۔ شہدا کے خون کے لہو کی سرخی اب یہاں پھول بکھیر رہی ہے ۔

 
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

معانی: گردوں : آسمان ۔ عنابی: سرخ ۔ نکلتا ہوا سورج: برے دنوں کے دور ہونے کی علامت ۔ افق تابی: آسمان کو روشن کرنے کا عمل ۔
مطلب: ذرا غور سے دیکھ کہ آسمان کا رنگ بڑی تیزی کے ساتھ عنابی ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ اس امر کی علامت ہے کہ اندھیری شب کے بعد سویرا نمودار ہونے والا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ طلوع آفتاب کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں ۔

 
امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محرومِ ثمر بھی ہیں ، خزاں دیدہ بھی ہیں

معانی: گلشنِ ہستی: دنیا ۔ ثمر چیدہ: پھل پانے والی ۔ خزاں دیدہ: اجڑے باغ والی ۔
مطلب: اس کائنات میں بے شمار قو میں ایسی ہیں جو اپنی جدوجہد کے طفیل سرخرو ہو چکی ہیں ان کے علاوہ ایسی اقوام بھی موجود ہیں جو اب بھی محرومی کا شکار ہیں ۔ اور یوں لگتا ہے کہ خزاں ان کے چمن کا مقدر ہے ۔

 
سیکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
سیکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

معانی: نخل: درخت ۔ کاہیدہ: مرجھائے ہوئے ۔ بالیدہ: بڑا پھولا ہوا، تروتازہ ۔ بطنِ چمن: باغ کی زمین ۔ پوشیدہ: چھپی ہوئی ۔
مطلب: زندگی کہ ایک باغ کی مانند ہے اس میں بے شمار درخت ہیں جن میں سے بعض کمزور اور مرجھائے ہوئے ہیں جب کہ کچھ درخت شاداب اور سرسبز نظر آتے ہیں ۔ یہی نہیں سینکڑوں درخت تو ابھی باغ کے بطن میں پوشیدہ ہیں ۔

 
نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

معانی: برومندی: سرسبز ہونے، پھل دینے کی حالت ۔ سیکڑوں صدیاں : مراد سیکڑوں برس ۔ پھل: نتیجہ ۔ چمن بندی: باغ کی دیکھ بھال ۔
مطلب: لیکن ان سب کے مقابلے میں شجر اسلام پھلنے پھولنے کے حوالے سے مثالی حیثیت کا حامل ہے کیوں نہ ہو جب کہ یہ صدیوں کی کاوش کا ثمر ہے ۔

 
پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

معانی: سرِ داماں : پلو کا کنارہ ۔ تو وہ یوسف ہے: مراد تمام دنیا مسلمان کے لیے وطن کی حیثیت رکھتی ہے ۔
مطلب: یہ امر باعث اطمینان ہے کہ تیرا دامن وطنیت کے تصور سے پاک ہے ۔ توتو ایسے یوسف کی مانند ہے جس کے لیے مصر کی سرزمین بھی کنعان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان کا کوئی ملک و وطن نہیں ہوتا بلکہ ہر خطہ زمین اس کے لیے وطن کی مانند ہے ۔

 
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگِ درا کچھ نہیں سامان تیرا

معانی: غیر: سوائے ۔ بانگ درا: قافلے کی گھنٹی کی آواز ۔
مطلب: اسی واسطے تیرا قافلہ کہیں رکے بغیر منزل کی جانب رواں دواں رہے گا ۔ اس لیے کہ تو نے تو اپنے آپ کو ہر نوع کے سازوسامان سے بے نیاز رکھا ہے ۔

 
نخلِ شمع استی و در شعلہ دود ریشہَ تو
عاقبت سوز بود سایہَ اندیشہ تو

مطلب: اے مسلمان! تیری مثال تو ایک ایسی موم بتی کی طرح ہے جس میں دھاگہ ایک رشتے کے مانند شعلے میں دوڑتا ہے ۔ تیرے فکر و خیال کا عکس بھی اسی طرح دل انسان میں سوز اور تپش پیدا کرے گا ۔

 
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہَ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

معانی: ایران: ہمسایہ اسلامی ملک، مراد جغرافیائی حدیں ۔ توُ: مسلمان ۔ نشہَ مے: شراب کی مستی ۔
مطلب: اس شعر میں وطنیت کے تصور کی اسلامی نقطہ نظر سے وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بالفرض سلطنت ایران کا خاتمہ ہو جائے تو اس سے یہ تو لازم نہیں کہ اسلام اور مسلمان ختم ہو کر رہ جائیں گے ۔ اس کی مثال شراب کا نشہ ہے جس کا عملاً پیمانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ نشہ شراب میں ہوتا ہے نہ کہ پیمانے میں ۔

 
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

معانی: عیاں : ظاہر ۔ یورش تاتار: اشارہ ہے چنگیز خان کے حملے کی طرف ۔
مطلب: یہ حقیقت تاتاریوں کے حملوں سے بھی کھل جاتی ہے کہ ایک زمانے میں انھوں نے بغداد اور کئی دوسرے اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی ۔ پھر یہی تاتاری مغل اور ترکوں کے روپ میں ایشیا، افریقہ اور یورپ میں اسلام کے علمبردار بن گئے ۔

 
کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصرِ نو رات ہے، دُھندلا سا ستارا تو ہے

معانی: کشتیِ حق: اسلام ۔ عصرِ نو: نیا زمانہ ۔
مطلب: جہاں تک تیری ذات کا تعلق ہے کہ سچائی کو زندہ رکھنے کے لیے تیری ذات ہی بنیادی حیثیت کی حامل ہے ۔ اور یہ عصر نو ہے یہ تو ایک اندھیری رات کی طرح ہے اس میں تو ہی ہے جو ستارے کی طرح چمک رہا ہے ۔

 
ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

معانی: یورش بلغاری: بیسوی صدی کے آغاز میں ترکوں کی سیاسی قوت کے زوال کے سبب بلقانی ریاستوں نے 1914ء سے پہلے ترکوں سے جنگ کر کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔ بیداری: بے عملی چھوڑ کر عملی کی راہ اختیار کرنا ۔
مطلب: ترکوں پر بلغاریہ کے عساکر نے جو یلغار کر رکھی ہے وہ تم لوگوں کے لیے جو غفلت کی نیند سو رہے ہو بیداری کا پیغام ہے ۔

 
تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے تیرے  ایثار کا، خودداری کا

معانی: دل آزاری: دل کو دکھ پہنچنا ۔ ساماں : سبب، باعث ۔
مطلب: تیرا خیال ہے کہ ان حملوں کے باعث تیری دل آزاری مقصود ہے نہیں ! یہ تو دراصل تیری ایثار اور خودداری کا امتحان ہے ۔

 
کیوں ہراساں ہے صہیلِ فرسِ اعدا سے
نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے

معانی: ہراساں : ڈرا ہوا ۔ صہیل: گھوڑے کا ہنپنانا ۔ فرس: گھوڑا ۔ اعدا: جمع عدو، دشمن ۔ نور حق: حق کی روشنی، اسلام ۔ نفس: پھونک ۔
مطلب: نہ جانے تو دشمنوں کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے خوف زدہ کیوں ہو رہا ہے ۔ ذرا بنظر غائر دیکھے تو تجھے خود ہی پتہ چل جائے گا کہ دشمنوں کی پھونکوں سے حق کا چراغ نہیں بجھ سکتا ۔

 
چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری

معانی: محفلِ ہستی: دنیا ۔
مطلب: تو کیا ہے اور تیری حقیقت کیا ہے یہ سب تو ابھی دوسری اقوام کی نگاہوں سے چھپا ہوا راز ہے ۔ ورنہ امر واقعہ تو یہ ہے کہ ابھی اس دنیا کو تیری ضرورت ہے ۔

 
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری

معانی:حرارت: گرمی، عشق کا جذبہ ۔ کوکب قسمتِ امکاں : مراد دنیا کی قسمت کا ستارہ ۔
مطلب: تجھ میں جو عمل کی حرارت موجود ہے وہی تو زمانے کو زندہ اور سرگرم رکھے ہوئے ہے ۔ تیری خلافت و حکومت اس دنیا کے مقدر کا ستارہ ہے کہ تو ختم ہوگیا تو یہ بھی ختم ہو کر رہ جائے گی ۔

 
وقتِ فرصت ہے کہاں ، کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

معانی: نورِ توحید: خدا کی وحدت کی روشنی ۔ اتمام: مکمل ہونا ۔
مطلب: اے مسلمان! اٹھ سرگرم عمل ہو کہ فرصت کا وقت نہیں رب ذوالجلال نے تجھے جو ذمہ داری سونپی ہے اس کی تکمیل تیرا فرض ہے خدا کی وحدانیت کو عام کرنے کا کام بھی باقی ہے ۔

 
مثلِ بو قید ہے غنچے میں ، پریشاں ہو جا
رخت بردوشِ ہوائے چمنستاں ہو جا

معانی: مثلِ بو: خوشبو کی طرح ۔ پریشاں ہو جا: مراد دنیا بھر میں پھیل جا ۔ غنچے میں قید ہونا: مراد سرف اپنے خاص علاقے ، ملک تک محدود رہنا ۔ رخت بردوش: کندھے پر سامان رکھ کر، مکمل تیاری کر ۔ ہوائے چمنستاں : باغ، دنیا کی فضا ۔
مطلب: تیری مثال تو اس خوشبو کے مانند ہے جو غنچے میں محبوس ہے تیرے لیے لازم ہے کہ اس قید سے رہا ہو کر گلستاں کی ہوا کے کاندھے پر سوار رخت سفر باندھ کر سارے عالم میں پھیل جا ۔

 
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمہَ موج سے ہنگامہَ طوفاں ہو جا

معانی: تنک مایہ: تھوڑی دولت، طاقت والا، کمزور ۔ نغمہَ موج: لہروں کی آوازیں ۔ ہنگامہَ طوفاں : طوفان کا شور ۔
مطلب: اگر تو بے بضاعت اور بے مال و منال ہے تو ایسی صلاحیت پیدا کر کہ ذرے سے بیاباں میں تبدیل ہو جائے ۔ اور اگر دریا کی موج کے نغمہ کے مماثل ہے تو اس حیثیت کو ترک کر کے طوفان کے ہنگامے کی شکل اختیار کر لے ۔

 
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کر دے

معانی: قوتِ عشق: خدا اور رسول سے محبت کی طاقت ۔ بالا: مراد بلند ۔ اسمِ محمد: حضور اکرم کا نام مبارک ۔
مطلب: تجھ میں جو عشق حقیقی کی قوت موجود ہے اس کی وساطت سے دنیا کی ہر ادنیٰ شے کو بلند کر دے اور اس تاریک زمانے میں آنحضرت کے نام کی روشنی سے اجالا کر دے ۔

 
ہو نہ یہ پھول تو بلبل میں ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

معانی: یہ پھول: مراد حضور اکرمﷺ ۔ ترنم: چہچہانا ۔ تبسم: مسکرانا ۔
مطلب: آنحضرت کی ذات صفات کو پھول سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ پھول باغ میں نہ ہو تو بلبل نغمے الاپنے چھوڑ دے ۔ دنیا کے باغ میں کلیوں کا تبسم بھی باقی نہ رہے ۔

 
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو

معانی:خم: صراحی ۔ بزم توحید: مراد خدا کی وحدت کا چرچا ۔
مطلب: اگر آنحضرت مئے حقیقی نہ پلائیں تو نہ پیمانہ ہو نہ صراحی ۔ یہ جو وحدانیت کی محفل سجی ہوئی ہے یہ اور تم مسلمان بھی ناپید ہو جاوَ ۔

 
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

معانی: استادہ: کھڑا ہوا، برقرار ۔ اسی نام: محمد جن کے طفیل یہ کائنات وجود میں آئی ۔ بنضِ ہستی: کائنات کی رگ ۔ تپش آمادہ: حرکت میں رہنے والی یعنی زندگی کا باعث ۔
مطلب: آسمان اسی نام سے قائم ہے اور انسانی وجود میں جو حرارت ہے اس کا سبب بھی یہی نام ہے ۔ مراد یہی ہے کہ آنحضرت کے لیے ہی یہ دنیا پیدا کی گئی ۔

 
دشت میں ، دامنِ کہسار میں ، میدان میں ہے
بحر میں ، موج کی آغوش میں ، طوفان میں ہے

معانی: دامن کہسار: پہاڑ کی وادی ۔
مطلب: یہ نام اور شخصیت جو پیغمبر آخر الزمان کی ہے اس کا وجود ہر شے میں ہے ۔ خواہ صحرا ہو، پہاڑ ہوں ، میدان ہوں ، سمندر اور موجوں کی آغوش میں یا طوفان میں سب میں موجود ہے ۔

 
چین کے شہر، مراقش کے بیاباں میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے

مطلب: حتیٰ کہ چین کے شہروں میں ، مراکش کے بیابانوں میں اور اہل اسلام کے ایمان میں پوشیدہ ہے ۔

 
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رَفَعنا لَکَ ذِکرَک دیکھے

معانی: ابد تک: رہتی دنیا تک ۔ رفعتِ شان: عظمت اوربڑائی کی بلندی ۔ رفعنا لک ذکرک: قرآن کی ایک آیت کا ٹکرا ہم نے تیری خوشی کی خاطر تیرا نام بلند کر دیا ۔
مطلب: دنیا بھر کی قو میں قیامت تک یہ منظر دیکھتی رہیں گی کہ رب ذوالجلال نے حضور اکرم کا تذکرہ اور مرتبہ بلند رکھنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ کس انداز میں پورا کیا جاتا رہا ہے ۔ مراد یہ کہ آنحضرت کے نام کے ساتھ توحید اور رسالت بھی ہمیشہ قائم رہے گی اور یہ وعدہ ضرور پورا ہوتا رہے گا ۔

 
مردمِ چشمِ ز میں ، یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا

معانی: مردمِ چشم: آنکھ کی پتلی ۔ کالی دنیا: سیاہ فام لوگوں ، حبشیوں کا ملک ۔ شہدا پالنے والی دنیا: اشارہ ہے ملک حبشہ کی طرف ۔
مطلب: اس شعر میں براعظم افریقہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ خطہ ارض جسے کالی دنیا کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اس خطہ ارض پر بے شمار شہدا کی پرورش ہوئی ہے ۔

 
گرمیِ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

معانی: گرمی مہر: سورج کی حرارت، حبشہ شدیدگرمی والا ملک ۔ پروردہ: پالی ہوئی ۔ ہلالی دنیا مراد ہلالی نشان، جھنڈے والا، مسلمانوں کا ملک ۔ بلالی دنیا: اشارہ ہے حبشی غلام حضرت بلال کی طرف ۔
مطلب: یہ وہ سرزمین ہے جسے سورج کی حدت نے پرورش کیا ہے اور جو ملت مسلمہ کے پرچم سے متعلق ہے جس پر چاند ستارہ بنا ہوا ہے جس اہل عشق حضرت بلال حبشی سے منسوب کرتے ہیں ۔

 
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

معانی: تپش اندوز: تڑپنے اور بے چین رہنے والی ۔ غوطہ زن: ڈبکی لگانے والی ۔ آنکھ کا تارا: مراد آنکھ کی پتلی کے اندر چمکتا ہوا باریک نقطہ ۔
مطلب: یہ دنیا! آنحضور کے نام سے ہی پارے کی مانند متحرک اور پرجوش ہے ۔ اس نام کے طفیل آنکھ کی پتلی کی طرح نور اور روشنی میں ڈوبی ہوئی ہے ۔

 
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
میرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری

معانی: سپر: ڈھال ۔ شمشیر: تلوار ۔ درویش: فقیرانہ زندگی گزارنے والا ۔ جہانگیر: پوری دنیا پر چھا جانے والی ۔
مطلب : اے ملت مسلمہ کے فرزند! عقل تیرے لیے ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے اور عشق تیری تلوار ہے ۔ اے میرے درویش بے شک تیری حکومت و خلافت ساری دنیا کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔

 
ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہے تو تقدیر ہے تدبیر تری

معانی: ماسوی اللہ: اللہ کے سوا جو کچھ ہے، یہ کائنات وغیرہ
مطلب: تیری تکبیر معبود حقیقی کے سوا اور سب کے لیے آگ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر تو پکا اور پختہ عقیدہ مسلمان ہو جائے تو تیری تدبیر ہی تقدیر کا روپ دھار لے گی ۔

 
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

معانی: لوح و قلم: یعنی خود اپنی اور ساری کائنات کی تقدیر(تیرے ہاتھ میں ہے) ۔
مطلب: سو اے عزیز! اگر تو نے میرے پیغمبر محمد کی او ران کی تعلیمات کو اپنا شعار بنایا تو جان لے کہ ہم تیرے ہی ہیں اور یہ دنیا تو الگ رہی لوح و قلم بھی تیرے ہوں گے ۔