Please wait..

سرود

 
آیا کہاں سے نالہ نے میں سرور مے
اصل اس کی نَے نواز کا دل ہے کہ چوبِ نے

معانی: سرود: نغمہ، موسیقی، گانا ۔ نالے نے: بنسری کی پرسوز آواز: سرور مے: شراب کا نشہ ۔ اصل: اصلیت اس کی ۔ نے نواز: بنسری بجانے والے ۔ چوب نے: بنسری کی لکڑی ، بانس کی لکڑی ۔
مطلب: ہم بنسری بجانے والے کو دیکھتے ہیں کہ وہ لکڑی کی ایک لمبی سے چھیدوں والی بانس کی لکڑی سے پرسوز نغمے نکالتا ہے ۔ شاعر یہ پوچھتاہے کہ اے مخاطب کیا تجھے معلوم ہے کہ اس لکڑی سے جو پرسوز نغمے نکل کر ہم میں شراب کی سی مستی پیدا کر رہے ہیں اس میں شراب کی سی مستی کہاں سے آئی ہے ۔ کیا اس کا سبب بنسری بجانے والے کا دل ہے یا بنسری کی لکڑی ہے ۔ اس کا جواب اگلے شعروں میں آئے گا ۔

 
دل کیا ہے اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے
کیوں اس کی اک نگاہ الٹتی ہے تخت کے

معانی: کے: ایرن کے بادشاہوں کا لقب جیسے کیقاد، کیخسر وغیرہ ۔
مطلب: دل کیا ہے یہ محض گوشت کا لوتھڑا نہیں ہے ۔ دل کیا ہے پہلے اس کو سمجھ اور یہ بھی سمجھ کہ اس میں جو مستی پیدا ہوتی ہے اور اس میں جو صلاحتیں اور طاقتیں موجود ہیں وہ کہاں سے آئی ہیں ۔ یہ معلوم کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ دل میں ایسی صلاحیت اور قوت کہاں سے آ گئی ہے کہ اہل دل اپنی ایک نگاہ سے ایران کے طاقت ور بادشاہ کا تخت الٹ سکتے ہیں ۔

 
کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات
کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے

معانی: واردات: اندرونی کیفیات ۔ پے بہ پے : لگاتار ۔
مطلب: یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ دل میں کونسی ایسی چیز ہے کہ اس کی زندگی پر قوموں کی زندگی موقوف ہے اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دل کی اندرونی کیفیات کیوں ایک جیسی نہیں رہتیں اور کیوں لگاتار بدلتی رہتی ہیں ۔

 
کیا بات ہے کہ صاحبِ دل کی نگاہ میں 
جچتی نہیں ہے سلطنتِ روم و شام و رَے

معانی: روم و شام و رے: ملکوں کے نام ہیں ۔ روم اور شام تو مشہور ہیں رے ایک قدیم سلطنت تھی جو ملک شام کے تابع تھی ۔
مطلب: یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ کسی دل والے کی نگاہ میں روم، شام اور رے کی سلطنتیں کیوں نہیں ججتیں ۔ اسے پسند کیوں نہیں آتیں ۔ وہ ان کو حقیر کیوں سمجھتا ہے ۔

 
جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے

معانی: مغنی : گانے والا ۔ رمز: بھید،پوشیدہ بات ۔
مطلب: اقبال نے اپنے فارسی اور اردو کلام میں کئی جگہ دل کی بات کی ہے اور سمجھایا ہے کہ آدمی کا دل کیا ہے ۔ اہل دل کون ہے ۔ اس میں کیا صلاحتیں ہوتی ہیں لیکن یہاں استفہامیہ انداز ہی اختیار کیے رکھا ہے اور جواب میں کچھ نہیں کہا ۔ البتہ دوسری کئی جگہ بتایا ہے کہ دل خون کو جسم میں بھیجنے والے عضو کا نام نہیں بلکہ اہل عشق و فقر کے نزدیک دل کچھ اور ہی شے ہے اور جس دن گانے والے کو وہ دل مل گیا اور اس کا دل کا بھید اسکی سمجھ میں آ گیا تو پھر سمجھو کہ اس نے اصل نغمہ کی منزل طے کر لی ۔ ورنہ اس کانغمہ تفریح کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ نغمہ جو اس کے دل سے نکلے گا جس دل کی بات صاحب عشق و فقر کرتے ہیں تو اس نغمہ سے افراد و اقوام کو حیات ملے گی ۔ نہ کہ وہ ان کی موت ہو گی جیسا کہ تفریحی نغمہ پیدا کر رہا ہے ۔