کارل مارکس کی آواز
یہ علم و حکمت کی مُہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش نہیں ہے دُنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش
معانی: مہرہ بازی: لفظی معانی ہیں مہروں سے کھیلنا لیکن مراد عیاری اور مکاری ہے ۔ گوارا نہیں : پسند نہیں ۔
مطلب: یہودی کارل مارکس نے جو اشتراکیت کا بانی ہے عہد حاضر کے ان سیاسی اور معاشی مفکروں سے خطاب کرتے ہوئے جو سرمایہ دارای کے حامل ہیں اور اشتراکیت کے خلاف ہیں کہا ہے کہ میرے نظام اشتراکیت کے خلاف اور سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں تم جتنی بھی علم کی اور حکمت کی باتیں کرتے ہو یہ دراصل تمہاری عیاری اور مکاری کی باتیں ہیں اور اس سلسلے میں تم جو بحث و تکرار بھی کرتے ہو وہ دل سے نہیں بلکہ محض اپنی نمود کے لیے کرتے ہو ۔ سمجھ رکھو تمہاری یہ مکاری کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ دنیا والوں کو اب سرمایہ دارانہ قسم کے پرانے خیالات کی نمائش سے کوئی سروکار نہیں رہا ۔
تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر خطوطِ خمدار کی نمائش مریز و کجدار کی نمائش
معانی: حکیم معاش: معاشیات کا مفکر ۔ خطوط خمدار: ٹیڑھے خط ۔ مریز و کجدار: لفظی معانی نہ گرا اور ٹیرھا رکھ ۔ مراد ہے کسی کی جھولی میں سب کچھ ڈالنے کی کوشش کرنا لیکن کچھ نہ ڈالنا ۔
مطلب: اے معاشیات کے وہ مفکر جو اشتراکیت کے مقابلے سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کر رہا ہے تو نے اپنی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ سوائے اس کے کیا ہے کہ اس میں کچھ ٹیڑھی لکیریں اور جو مضمون ہے وہ کچھ اس انداز کو لیے ہوئے ہے کہ کسی کی جھولی میں سب کچھ ڈالنے کا ارادہ ظاہر کرنا لیکن ڈالنا کچھ بھی نہیں ۔ یعنی تم اپنی کتابوں میں غریبوں ، مزدوروں اور کسانوں کی ہمدردی کا دعویٰ تو کرتے ہو لیکن عملاً ان کے لیے کچھ کرنے کا طریقہ نہ بتاتے ہو نہ نافذ کرتے ہو اس کے مقابلے میں مجھے دیکھو میں نے اپنی کتاب بنام سرمایہ میں مزدوروں کی جھولی کو خالی نہیں رکھا ۔
جہانِ مغرب کے بتکدوں میں ، کلیساؤں میں ، مدرسوں میں ہوس کی خونریزیاں چھپاتی ہے عقلِ عیار کی نمائش
معانی: ہوس کی خونریزیاں : شیطانی خواہشات کے ایسے ہتھکنڈے جو غریبوں کا خون بہاتے ہیں ۔ عقل عیار: مکار عقل ۔
مطلب: کارل مارکس سرمایہ دارانہ نظام کا پرچار کرنے والوں کو کہتا ہے کہ کیا تم نے یورپ کے بت کدوں ، گرجوں اور مدرسوں کو نہیں دیکھا کہ وہاں کے سرمایہ دار لوگ دولت حاصل کرنے کے لیے اور غریبوں اور مزدوروں کا خون چوسنے کے لیے مکار عقل کے ذریعے ایسے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ جس سے سرمایہ دارانہ نظام واقعی بھلا معلوم ہوتا ہے ۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ علامہ نے اس سے پہلی نظم بہ عنوان اشتراکیت میں اشتراکی نظام معاش کی برائی دکھائی تھی اور زیر بحث نظم میں کارل مارکس کے خیالات کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں اور مکاریوں کو ظاہر کیا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ نہ کارل مارکس کا اشتراکی نظام انسان کی بھلائی کے لیے ہے اور نہ یورپ والوں کا سرمایہ دارانہ نظام ۔ اگر کوئی نظام امیر و غریب کے تفرقے اور چپقلش کو ختم کرتا ہے اور ہر چھوٹے بڑے طبقہ کی بھلائی کا علم بردار ہے تو وہ صرف قرآن اور اسلام کا معاشی نظام ہے ۔