ہمایوں
(مسٹر جسٹس شاہ دین مرحوم)
اے ہمایوں زندگی تیری سراپا سوز تھی تیری چنگاری چراغِ انجمن افروز تھی
معانی: ہمایوں : میاں محمد شاہ دین، ہمایوں تخلص ۔ پنجاب کے ایک خاندان سے تعلق تھا ۔ شاعری کرتے تھے ۔ مجموعہ کلام جذباتِ ہمایوں ہے ۔ سراپا سوز: پورے طور پر مجسم جذبوں کی گرمی والی ۔ چنگاری: شرارہ ۔ چراغِ انجمن افروز: محفل کو روشن کرنے والا دیا، مراد بے حد مفید ۔
مطلب: میاں دیں محمد کا شمار پنجاب کے ان زعماء میں کیا جاتا ہے جو بیسوی صدی کے اوائل میں اس خطہ ارض کی عزت و تحریم کا سبب تھے ۔ وہ اقبال کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔ 1918 میں وفات پائی تو اقبال نے تعزیتی اشعار لکھے ۔ اقبال فرماتے ہیں اے ہمایوں ! تیری زندگی تو ملت کے لیے سراپا سوز کی حیثیت رکھتی تھی تیری ذات ایک ایسے چراغ کی مانند تھی جو ساری محفل کے لیے روشنی کا سبب بنتا ہے۔
گرچہ تھا تیرا تنِ خاکی نزار و درد مند تھی ستارے کی طرح روشن تری طبعِ بلند
معانی: تنِ خاکی: جسم ۔ نزار: کمزور، دبلا پتلا ۔ طبعِ بلند: یعنی بلند ارادوں والی طبیعت ۔
مطلب: ہر چند کہ تیرا جسم ناتواں خاک کا ایک مختصر سا تودہ تھا لیکن تیری روشن طبع تو ستاروں کی طرح سے منور تھی ۔
کس قدر بیباک دل اس ناتواں پیکر میں تھا شعلہَ گردوں نورد اک مشتِ خاکستر میں تھا
معانی: ناتواں پیکر: دبلا، پتلا، کمزور بدن ۔ شعلہَ گردوں نورد: آسمان طے کرنے ، پھرنے والا شعلہ ۔ مشتِ خاکستر: مٹھی بھر راکھ، مٹی یعنی جسم ۔
مطلب: اے ہمایوں جو لوگ تیری شخصیت سے آشنا تھے وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تیرے ناتواں جسم میں کس قدر بیباک اور نڈر دل موجود تھا ۔
موت کی لیکن دلِ دانا کو کچھ پروا نہیں شب کی خاموشی میں جز ہنگامہَ فردا نہیں
معانی: شب کی خاموشی میں جُز ہنگامہَ فرد ا نہیں : رات کی خاموشی میں آنے والے کل کی رونق اور چہل پہل کے سوا کچھ نہیں یعنی رات کے بعد ایک نئی زندگی ہے ۔
مطلب: لیکن دانشمند لوگ موت کی قطعی پروا نہیں کرتے ۔ وہ جانتے ہیں کہ رات کے سکوت میں آنے والی کل کے ہنگامے پوشیدہ ہوتے ہیں ۔
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
معانی: یہ شامِ زندگی: یعنی موت ۔ صبحِ دوامِ زندگی: زندگی ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی صبح ۔
مطلب: موت کو احمق لوگ زندگی کے خاتمے سے تعبیر کرتے ہیں جب کہ یہ زندگی کی شام تو انسان کو ہمیشگی بخشنے والی صبح کی مانند ہے ۔