Please wait..

ماہِ نو

 
ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقابِ نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل

معانی: ماہِ نو: پہلی رات کا چاند، ہلال ۔ خورشید: سورج ۔ غرقابِ نیل ہوئی: مصر کے دریائے نیل میں ڈوب گئی ۔ ایک ٹکڑا: اشارہ ہے ہلال کی طرف ۔ تیرتا پھرتا ہے: یعنی اس کا عکس ہلتے پانی میں پڑ رہا ہے ۔
مطلب: اقبال اس نظم میں بیان کرتے ہیں کہ جب سورج اپنا سفر تمام کر کے شام کے دھند لکے میں غرق ہو گیا تو یوں محسوس ہوا کہ اس کے نور کا ایک ٹکڑا سطح آسماں پر ہلال نو کی صورت میں ظاہر ہوا ۔

 
طشتِ گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خونِ ناب
نشترِ قدرت نے کیا کھولی ہے فصدِ آفتاب

معانی: طشتِ گردوں : آسمان کی تھالی ۔ شفق: آسمان کی سرخی ۔ خون ناب: خالص خون ۔ نشتر: زخم چیرنے کا باریک اوزار ۔ فصد کھولنا: نشتر سے رگ میں سے خراب خون نکالنا ۔
مطلب: اس لمحے کا منظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ لمحہ وہ ہے کہ شفق کی سرخی اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے بالفاظ دگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فطرت نے سورج کی سرخی انڈیل کر رکھ دی ہے ۔

 
چرخ نے بالی چرا لی ہے عروسِ شام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیمِ خام کی

معانی: بالی: کان کا بُندا ۔ عروسِ شام: شام یا رات کی دلہن ۔ سیم خام: کچی چاندنی ۔
مطلب: ہلال نو کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے شام ایک دلہن کی مانند ہے اور ہلال نو اس کے کانوں کی بالی ہے یا پھر شفاف پانی میں چاندی کے رنگ جیسی مچھلی تیر رہی ہو ۔

 
قافلہ تیرا رواں بے منتِ بانگِ درا
گوشِ انساں سُن نہیں سکتا تری آوازِ پا

معانی: بے منت: احسان کے بغیر ۔ بانگِ درا: قافلے کی گھنٹی کی آواز ۔ گوش: کان ۔ آواز پا: پاؤں کی چاپ ۔
مطلب: تیرا قافلہ گھنٹیوں کے بغیر بڑی خاموشی سے رواں دواں ہے ۔ یہ ایسا سکوت ہے جو انسانی کانوں تک جس کی رسائی ممکن نہیں ۔

 
گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دکھلاتا ہے تو
ہے وطن تیرا کدھر، کس دیس کو جاتا ہے تو

مطلب: کبھی تو اپنے حجم میں کم ہو جاتا ہے اور کبھی زیادہ! قدرتی طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ تیرا سفر کس جانب رواں ہے اور تیری قیام گاہ کہاں ہے ۔

 
ساتھ اے سیارہَ ثابت نما لے چل مجھے
خارِ حسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل مجھے

معانی: سیارہَ ثابت نما: ایسا چلنے والا ستارہ جو ایک جگہ پر ٹکے ہوئے دکھائی دیتا ہے ۔ خارِ حسرت: آرزو کا کانٹا ۔ خلش: چبھن ۔ بے کل: بے چین ۔
مطلب: اے رواں دواں رہنے والے سیارے مجھے بھی اپنے ہمراہ لے چل ۔ اس لیے کہ میں خود بھی اس ماحول سے پریشان ہوں جو میرے گردوپیش موجود ہے ۔

 
نور کا طالب ہوں ، گھبراتا ہوں اس بستی میں میں
طفلکِ سیماب پا ہوں مکتب ہستی میں ، میں

معانی: طفلک: چھوٹا سا بچہ ۔ سیماب پا: جس کے پاؤں حرکت ہی میں رہتے ہوں ۔ مکتب ہستی: یہ دنیا جو انسان کے لیے مقامِ عبرت و درس ہے ۔
مطلب: میں تو تاریکی کے بجائے روشنی کا طالب ہوں اور ایسے بچے کی مانند ہوں جو مدرسے کے نامناسب ماحول سے گھبراتا ہے ۔