اہلِ مصر سے
خود ابوالہول نے یہ نکتہ سکھایا مجھ کو وہ ابوالہول کہ ہے صاحبِ اَسرارِ قدیم
معانی: ابوالہول: ملک مصر میں دارلحکومت قاہرہ کے نزدیک صحرا میں جہاں فرعونوں کے اہرام (مقبرے) بنے ہوئے ہیں ان کے قریب کی چٹان کو تراش کر ایک بہت بڑا بت بنایا ہوا ہے جس کا دھڑ شیر کا ہے اور چہرہ آدمی کا ۔ صاحب اسرار قدیم : پرانے بھیدوں کا مالک ۔ نکتہ: باریک بات ۔
مطلب: ظاہر ہے بت تو بے زبان ہوتا ہے اقبال نے اپنے شاعرانہ خیال سے یہ بات بتائی ہے کہ جب میں نے ابوالہول کو دیکھا جو پرانے بھیدوں کا مالک ہے اس نے مجھے یہ باریک بات بتائی ہے اس باریک بات کا ذکر اگلے شعر میں ہے ۔
دفعتاً جس سے بدل جاتی ہے تقدیرِ امم ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقلِ حکیم
معانی: دفعتہ: اچانک ۔ تقدیر امم: امتوں کی قسمت ۔ حریف: مدمقابل ۔ عقل حکیم: فلسفی کا فکر ۔
مطلب : وہ نکتہ یا باریک بات یہ ہے کہ جس چیز سے امتوں کی قسمت فوراً بدل جاتی ہے وہ چیز قوت یا طاقت ہے جس کے مدمقابل فلسفی کی فکر بھی نہیں ہو سکتی ۔ فلسفی اچھی باتیں تو ضرور کرتا رہے گا لیکن تقدیر کے بدلنے کے لیے صرف باتیں نہیں عمل بھی چاہیے اور اس معاملے میں عمل طاقت ہے البتہ طاقت کس قسم کی ہو یہ جواب طلب بات ہے ۔ اس کا جوا ب اگلے شعر میں موجود ہے ۔
ہر زمانے میں دِگرگوں ہے طبیعت اس کی کبھی شمشیرِ محمد کبھی چوبِ کلیم
معانی: دگر گوں : مختلف ۔ شمشیر محمد: نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی تلوار ۔ چوب کلیم: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی عصا ۔
مطلب: جس قوت کا دوسرے شعر میں ذکر کیا ہے اس سے متعلق علامہ کہتے ہیں کہ ہر زمانے میں موقع و محل کے مطابق اور حالات و واقعات کے پیش نظر اس کا مزاج یعنی صورت بدلتی رہتی ہے ۔ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں جو کفار مکہ نے بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کے لیے پیدا کر دیئے تھے تو پھر محمدی تلوار کی طاقت کی ضرورت ہے یعنی ایسی تلوار جو انصاف اور حق کو قائم کرنے کے لیے چلائی جائے نہ کہ ظلم اور بربریت کے لیے ۔ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں جو فرعون مصر نے بنی اسرائیل کے لیے پیدا کر دیئے تھے تو پھر طاقت تلوار کا نام نہیں عصائے موسیٰ کا نام ہے جس کے ذریعے اور جس کے معجزات سے بنی اسرائیل کی قسمت بدل گئی اور فرعون غرق دریا ہو گیا ۔