نمبر ۲
یہ سرودِ قُمری و بلبل فریبِ گوش ہے باطنِ ہنگامہ آبادِ چمن خاموش ہے
معانی: سرود: گانا ۔ قُمری: فاختہ کی قسم کا ایک پرندہ ۔ فریبِ گوش: کانوں کے لیے دھوکا ۔ باطن: ضمیر، اندر ۔ ہنگامہ آبادِ چمن: باغ میں رونق، چہل پہل کرنے والا ۔
مطلب: یہ جو قمری اور بلبل کی نغمہ گری ہے وہ دیکھا جائے تو سراسر فریب اور دھوکا ہے اس لیے کہ ان نغموں کے پس منظر میں بظاہر ہنگاموں سے بھرا ہوا چمن اور اس کا باطن خاموشی اور بے زبانی کا مظہر نظر آتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مغربی حکمرانوں کی دل خوش کن باتوں سے فریب نہیں کھانا چاہیے ۔ اس کے بجائے ملک و قوم کی بدحالی کا جائزہ لیتے ہوئے اس کا تدارک کرنا چاہیے ۔
تیرے پیمانوں کا ہے یہ اے مئے مغرب اثر خندہ زن ساقی ہے، ساری انجمن بے ہوش ہے
معانی: پیمانہ : شراب کا پیالہ ۔ مئے مغرب: یورپ کی شراب، یورپ کی تہذیب و تمدن جو مسلمانوں نے اختیار کی ۔ خندہ زن: ہنسنے والا ۔ ساقی: مراد انگریز ، یورپی ۔ ساری انجمن بیہوش ہے: مراد انگریز کی سیاست نے پوری ملت اسلامیہ کو غفلت میں ڈال رکھا ہے ۔
مطلب: اس شعر میں اشارہ اہل مغرب کی طرف ہے کہ ان حکمرانوں نے جو تہذیب و تمدن مسلمانوں پر مسلط کیے ہیں وہ ہمارے لیے کسی طرح پر بھی سود مند نہیں ۔ اس کے باوجود اس تہذیب کے سبب خود کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ جبکہ انگریز ہمیں اس طرح احمق بنانے پر اظہار مسرت کر رہا ہے ۔
دہر کے غم خانے میں تیرا پتا ملتا نہیں جرم تھا کیا آفرینش بھی کہ تو رُوپوش ہے
معانی: دہر: زمانہ، دنیا ۔ غم خانہ: دکھوں کا گھر ۔ تیرا: یعنی خدا کا ۔ جرم: خطا، غلطی ۔ آفرینش: مراد کائنات کا پیدا کرنا ۔ روپوش: منہ چھپانے والا، غائب ۔ سامنے نظر نہ آنے والا ۔
مطلب: انسان اس دنیا میں آ کر اس قدر بے عمل ہو گیا ہے کہ اپنا وجود کھو بیٹھا ہے گویا فطرت نے اس کو پیدا کر کے کوئی جرم کیا تھا جو انسان یوں غائب ہو گیا ہے ۔
آہ! دنیا دل سمجھتی ہے جسے، وہ دل نہیں پہلوئے انساں میں اک ہنگامہَ خاموش ہے
معانی : پہلو: بغل ۔ ہنگامہ خاموش: ایسا شور و غل جس کی آواز نہ ہو ۔
مطلب: یہ دنیا جس چیز کو دل تصور کرتی ہے وہ اپنی ہیءت کے اعتبار سے دل محسوس نہیں ہوتا بلکہ یہ تو انسان کے پہلو میں ایک ایسا عضو ہے جس میں ایک خاموش ہنگامہ برپا رہتا ہے۔
زندگی کی رہ میں چل، لیکن ذرا بچ بچ کے چل یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے
معانی: بچ بچ کے چل: ہر معاملے میں پوری احتیاط سے کام لے ۔ میناخانہ: شراب کی بوتلوں کا ڈھیر ۔ بارِ دوش: کندھے کا بوجھ، ذمہ داری ۔
مطلب: زندگی کا سفر طے تو ضرور کرنا ہے لیکن اس سفر کے دوران احتیاط لازم ہے کہ انسان کو بے شمار ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونا پڑتا ہے ۔ اور یہ ذمہ داریاں بڑی نازک ہوتی ہیں ۔
جس کے دم سے دلّی و لاہور ہم پہلو ہوئے آہ! اے اقبال! وہ بلبل بھی اب خاموش ہے
معانی: جس کے د م سے : جس کے سبب، اشارہ ہے میرزا ارشد گورگانی دہلوی کی طرف جن کی وجہ سے لاہور میں شعر و شاعری کا چرچا رہا ۔
مطلب: جس شخص کی وجہ سے دلی اور لاہور کے مابین رابطہ قائم ہوا وہ بھی وفات پا گیا ۔ یہاں اقبال کا اشارہ میرزا ارشد گوگانی کی موت کی طرف ہے ۔