امتحان
کہا پہاڑ کی ندی نے سنگ ریزے سے فتادگی و سرافگندگی تری معراج
معانی: سنگ ریزے: پتھروں کے ٹکڑے ۔ فتادگی: عاجزی ۔ سرافگندگی: سر جھکانا ۔ ۔ معراج: زندگی کا کمال ۔
مطلب: اس تین شعروں کی نظم میں اقبال نے پہاڑ کی ندی اورر اس کے راستے میں آنے والے یا اس کے اندر موجود پتھر کے ٹکروں کو خطاب کیا ہے اور ندی کی زبان سے کہا ہے کہ اے میرے راستے میں آنے والے یا میری تہہ میں بیٹھے ہوئے پتھر کے ٹکرو تم نے عاجزی کو اور سر جھانے کو اپنی زندگی کا کمال سمجھ رکھا ہے یعنی تم میں کسی قسم کی حرکت نہیں ہے جب کہ میں پہاڑ کی بلندیوں سے نیچے حرکت کرتی بہتی چلی جا رہی ہوں ۔
ترا یہ حال کہ پامال و درد مند ہے تو مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج
معانی: پامال: پاؤں میں روندنا: دردمند: رنج و غم والا ۔ محتاج: ضرورت مند ۔
مطلب: پتھر کے ٹکڑوں کو مزید خطاب کرتے ہوئے پہاڑ میں بسنے والی ندی یہ کہہ رہی ہے کہ ذرا میری شان تو دیکھو کہ میں پہاڑ وں کا سینہ چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہوں اور میری یہ قدر و قیمت ہے کہ دریا بھی اپنے پانی کے لیے مجھ پر انحصار رکھتے ہیں ۔ اگر میں نہ ہوتی تو دریاؤں میں پانی نہ ہوتا ۔ میرے مقابلے میں تمہارا یہ حال ہے کہ تم ایک جگہ پڑے ہوئے ہو ۔ تمہیں ہر کوئی پاؤں میں روندتا ہے اور اس طرح تم طرح طرح کے دکھ سہہ رہے ہو ۔ اگر تم بھی میری طرح حرکت میں ہوتے تو تمہارا کبھی یہ حال نہ ہوتا ۔
جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا کسے خبر کہ تو ہے سنگِ خارہ یا کہ زجاج
معانی: سنگ خارہ: ایک سخت قسم کا پتھر ۔ زجاج: شیشہ ۔
مطلب: اس شعر میں پہاڑ کی ندی پتھر کے ٹکڑوں سے خطاب کرتی ہوئی پھر یہ کہہ رہی ہے کہ تم تو عاجزی میں ایک جگہ پڑے ہو ئے ہو اور میری طرح تم کسی دیوار سے کبھی نہیں ٹکرائے جس کے نتیجے میں کسی کو یہ معلوم نہیں کہ تم شیشے کی طرح کوئی نازک چیز ہو یا ایک سخت پتھر کی مانند ہو ۔ مخالف قوتوں سے ٹکرانے کو شاعر نے زندگی کا امتحان کہا ہے ۔ جس طرح پہاڑ کی ندی پہاڑوں کو چیرتی ہے اور ہر چیز کو بہا لے جاتی ہے یہ اس کے باحرکت ہونے کا امتحان ہے ۔ اس کے مقابلے میں پتھروں کی سرنگونی اور عاجزی اور بے حرکتی ان کا ایک ایسا امتحان ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ زندگی میں ناکام ہیں ۔