نالہَ فراق
(آرنلڈ کی یاد میں )
جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرز میں
معانی : نالہَ فراق: کسی کی جدائی میں رونا ۔ آرنلڈ: سرٹامس آرنلڈ، اپنے وقت کے فلسفہ کے عظیم پروفیسر 1897 سے گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کے فراءض انجام دیے ۔ ان ہی کے کہنے پر علامہ اقبال نے فلسفہ میں ایم اے کیا ۔ 1904 میں انگلینڈ چلے گئے ۔ جا بسا: مقیم ہو گیا ۔ مغرب: مراد انگلستان ۔ مکیں : رہنے والا ۔
مطلب: اقبال لاہور میں پروفیسر آرنلڈ کی قیام گاہ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ تیرا مکیں بالاخر مغرب جا بسا ۔ افسوس یہ ہے کہ اس کو مشرق کی یہ سرزمین پسند نہ آئی ۔
آ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقین ظلمتِ شب سے ضیائے روزِ فرقت کم نہیں
معانی: ظلمتِ شب: رات کا اندھیرا ۔ ضیائے روز فرقت: جدائی کے دن کی روشنی ۔
مطلب: استاد کی جدائی میں آج مجھے اس صداقت پر پوری طرح سے یقین آ گیا ہے کہ بچھڑنے کے لمحات، رات کی تاریکی سے کسی طور پر بھی کم نہیں ہوتے ۔ یعنی جس طرح رات کی تاریکی میں انسان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا اسی طرح کسی سے جدائی کے لمحات میں بھی دل و دماغ مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
تا ز آغوش و داعش داغِ حیرت چیدہ است ہمچو شمعِ کشتہ در چشمم نگہ خوابیدہ است
مطلب: جب سے اس نے اسے یعنی محبوب کی جدائی کی گود سے حیرانی کا زخم چنا یعنی اٹھایا ہے اس وقت سے نگاہ بجھی ہوئی شمع کی طرح میری آنکھ میں سو گئی ہے ۔
کشتہَ عزلت ہوں ، آبادی سے گھبراتا ہوں میں شہر سے سودا کی شدت میں نکل جاتا ہوں میں
معانی: کشتہَ عزلت: تنہائی کا مارا ہوا ۔ سودا کی شدت: دیوانگی کا زیادہ ہونا ۔
مطلب: میں تو پہلے ہی تنہائی کا مارا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ آبادی سے گھبراتا رہا ہوں اور دیوانگی کی شدت بڑھنے کی وجہ سے شہر سے باہر نکل جاتا ہوں ۔
یادِ ایام سلف سے دل کو تڑپاتا ہوں میں بہر تسکیں تیری جانب دوڑتا آتا ہوں میں
معانی: ایام سلف : گزرے ہوئے دن ۔ دل کو تڑپانا: بیحد بے چینی میں رہنا ۔ بہر تسکین: سکون، آرام کی خاطر ۔
مطلب: گزرے ہوئے دنوں کی یاد سے دل کو تڑپاتا رہتا ہوں ۔ اور جب کہیں بھی سکون نہیں ملتا تو اے استاد تیری قیام گاہ کی جانب دوڑتا ہوا آ جاتا ہوں ۔
آنکھ گو مانوس ہے تیرے در و دیوار سے اجنبیت ہے مگر پیدا مری رفتار سے
معانی: مانوس: مراد پہلے سے دیکھا ہوا ۔ اجنبیت: ناواقف ہونے کی حالت ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ تیرے در و دیوار سے میری آنکھیں مانوس ہیں اس کے باوجود تیرے مکین کی عدم موجودگی میں یہاں اجنبیت کا احساس ہوتا ہے ۔
ذرہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا آئنہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا
معانی: میرے دل کا ذرہ: مراد میرا ننھا سا دل ۔ خورشید آشنا: سورج سے واقف، یعنی علم کی روشنی سے منور ۔
مطلب: اقبال فرماتے ہیں کہ اپنے استاد کی شفقت اور فیضان محبت سے میں ذرہَ ناچیز آفتاب کی مانند تابانی سے ہمکنار ہونے والا تھا ۔ مرا دل لاکھ ٹوٹے ہوئے آئینہ کے مانند ہے اس کے باوجود اس امر کا قطعی امکان تھا کہ استاد کی تربیت کے طفیل اس شکستہ آئینے میں ساری دنیا کا نظارہ کر سکوں ۔
نخل میری آرزووَں کا ہرا ہونے کو تھا آہ! کیا جانے کوئی، میں کیا سے کیا ہونے کو تھا
معانی: نخل: درخت ۔ ہرا ہونا: سرسبز ہونا، پھول پھل دینے لگنا ۔
مطلب: اس امر کی توقع بھی تھی کہ میری آرزووَں اورخواہشات کی تکمیل ہو جائے ۔ کون جانے کہ میں آئندہ ترقی کر کے کیا سے کیا ہونے والا تھا ۔
ابرِ رحمت دامن از گلزارِ من بر چید و رفت اند کے بر غنچہ ہائے آرزو بارید و رفت
مطلب: رحمت کے بادل نے میرے باغ سے اپنا پلّو اٹھا لیا (یعنی پوری طرح نہ برسا) اور چلا گیا ۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ میری تمنا کی کلیوں پر برسا اور چلا گیا ۔
تو کہاں ہے اے کلیمِ ذروہَ سینائے علم تھی تری موجِ نفس، بادِ نشاط افزائے علم
معانی: کلیمِ ذروہَ سینائے علم: علم کے طور سینا کا کلیم، مراد بہت بڑا عالم ۔ موجِ نفس: سانس کی ہوا ۔ بادِ نشاط افزائے علم: علم کی مسرت و لذت بڑھانے والی ہوا ۔
مطلب: اقبال آرنلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ علم کو اگر کوہ طور سمجھ لیا جائے تو ذات بھی علم و حکمت کے کلیم کی مانند ہے ۔ تیری گفتگو سے میرے علم اور مسرت میں اضافہ ہو جاتاتھا ۔
اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائیِ صحرائے علم تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
معانی: شوقِ رہ پیمائی صحرائے علم: علم کے جنگل میں چلنے کا اشتیاق ۔ سودائے علم: مراد علم سے عشق کا جذبہ ۔
مطلب: تیرے بغیر تو جیسے حصول علم کا شوق ہی ناپید ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس لیے کہ تیری موجودگی کے طفیل ہی میرے سر میں حصول علم کا جنون تھا ۔ لیکن تیرے جانے کے بعد تو یہ جنون جیسے ختم ہو گیا ۔
شورِ لیلیٰ کو کہ باز آرائش سودا کند خاکِ مجنوں را غبارِ خاطرِ صحرا کند
مطلب: لیلیٰ کا چرچا کہاں ہے کہ وہ پھر سے دیوانگی کی سجاوٹ کرے یعنی دیوانگی میں اضافہ کرے اور مجنوں کی خاک کو صحرا کے دل کا غبار بنا دے ۔
کھول دے گا دستِ وحشت عقدہَ تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو
معانی: عقدہ: گرہ ۔ دستِ وحشت: مراد شوق کی دیوانگی ۔ پنجاب کی زنجیر: اشارہ ہے گورنمنٹ کالج لاہور کی ملازمت کی طرف جو باہر جانے میں رکاوٹ تھی ۔
مطلب: علامہ اقبال اپنے عزم اور خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک روز یقیناً ایسا آئے گا جب میں حسب خواہش پنجاب کو چھوڑ کر اے عظیم استاد پھر تیرے سایہ التفات تک رسائی حاصل کر سکوں گا ۔
دیکھتا ہے دیدہَ حیراں تری تصویر کو کیا تسلی ہو مگر گرویدہَ تقریر کو
معانی: دیدہَ حیراں : پھٹی پھٹی نگاہیں ۔ گرویدہَ تقریر: مراد باتیں سننے کا شوق ۔
مطلب: میری نگاہیں تو یہاں بھی تیری تصویر کو بغور دیکھتی رہتی ہیں ۔ اس کے باوجود وہ اطمینان حاصل نہیں ہوتا جو تیری تصویر اور گفتگو سے حاصل ہوتا تھا ۔
تابِ گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا خامشی کہتے ہیں جس کو، ہے سخن تصویر کا
مطلب: میں اس امر کا ادراک تو رکھتا ہوں کہ تصویر قوت گویائی سے محروم ہوتی ہے بالفاظ دگر یہ خامشی ہی عملی سطح پر کسی تصویر کی گفتگو ہوتی ہے ۔