Please wait..

شبنم اور ستارے

 
اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
ہر صبح نئے تجھ کو میسر ہیں نظارے

معانی: شبنم: رات کی تری، اوس ۔ میسر: حاصل ۔
مطلب: ایک رات کا ذکر ہے کہ ستاروں نے شبنم سے مخاطب ہو کر کہا ۔ تجھ کو ہر صبح نئے نئے نظارے دکھائی دیتے ہیں ۔

 
کیا جانیے تو کتنے جہاں دیکھ چکی ہے
جو بن کے مٹے ان کے نشاں دیکھ چکی ہے

معانی: جو بن کے مٹے: جو عروج، وجود پا کر فنا کا شکار ہو گئے ۔
مطلب: نہ جانے تو اب تک کتنی دنیائیں دیکھ چکی ہے جو چیزیں عروج پا کر زوال کا شکار ہو چکی ہیں تو نے ان کی افتاد کا نظارہ بھی کیا ہے ۔

 
زہرہ نے سنی ہے یہ خبر ایک ملک سے
انسانوں کی بستی ہے بہت دور فلک سے

معانی: زہرہ: ایک سیارے کا نام ۔ مَلک: فرشتہ ۔
مطلب: اے شبنم! زہرہ ستارے نے کسی فرشتے سے یہ خبر سنی ہے کہ انسان جس دنیا میں آباد ہیں وہ آسمان سے کافی فاصلے پر واقع ہے ۔

 
کہہ ہم سے بھی اس کشورِ دلکش کا فسانہ
گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ

معانی: کشورِ دل کش: بہت پیارا ملک، بہت پیار ی دنیا ۔ قمر: چاند ۔
مطلب: اے شبنم! چونکہ تو انسانوں کی اس دلکش بستی کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے چاند بھی جس کی محبت کے نغمے گاتا ہے اس کا احوال سنا ۔

 
اے تارو! نہ پوچھو چمنستانِ جہاں کی
گلشن نہیں ، اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی

معانی: چمنستان: باغ ۔ آہ و فغاں : رونا، واویلا کرنا ۔
مطلب: ستاروں کی زبانی یہ بات سن کر شبنم نے جواباً کہا کہ اے ستارو! تم انسانی دنیا کے بارے میں کیا پوچھتے ہو وہ کوئی شگفتہ باغ نہیں بلکہ ایک ایسی بستی ہے جو آہ و فغاں سے عبارت ہے ۔

 
آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر
بے چاری کلی کھِلتی ہے مرجھانے کی خاطر

معانی: صبا: صبح کی خوشگوار ہوا ۔ واں : وہاں : پلٹ جانا: واپس چلے جانا، لوٹ جانا ۔ خاطر: واسطے، لیے ۔
مطلب: وہاں صبا محض اس لیے آتی ہے کہ مایوس ہو کر واپس لوٹ جائے اور باغوں میں کلی صرف مرجھانے کی خاطر ہی کھلتی ہے ۔

 
کیا تم سے کہوں کیا چمن افروز کلی ہے
ننھا سا کوئی شعلہَ بے سوز کلی ہے

معانی: چمن افروز: باغ کو روشن کرنے والی ۔ ننھا: چھوٹا ۔ شعلہَ بے سوز: ایسی لو، آنچ جس میں تپش نہ ہو ۔
مطلب: اس کلی کا احوال تم سے کیا کہوں کہ وہ کس طرح باغ کی آرائش کا سامان بنتی ہے ۔ وہ تو شاید ایک ننھا سا شعلہ ہے جو تپش سے محروم ہے ۔

 
گل نالہَ بلبل کی صدا سن نہیں سکتا
دامن سے مرے موتیوں کو چن نہیں سکتا

معانی: نالہ: فریاد ۔ صدا: آواز ۔ چننا: اکٹھے کرنا ۔
مطلب: اس دنیا میں پھول اس قدر مجبور ہے کہ اسے نالہ بلبل بھی سنائی نہیں دیتا ۔ میں خود اس کے دامن میں موتیوں کی طرح گرتی ہوں لیکن وہ انہیں بھی نہیں چن سکتا ۔

 
ہیں مرغِ نوا ریز گرفتار، غضب ہے
اُگتے ہیں تہِ سایہَ گل خار، غضب ہے

معانی: مرغِ نواریز: اچھی آواز میں چہچہانے والے پرندے ۔ گرفتار: پکڑے ہوئے ، قید میں ۔ غضب ہے: دکھ کی بات ہے ۔
مطلب: اس بستی میں تو نغمے الاپنے والے پرندوں کو بھی قیدی بنا لیا جاتا ہے ۔ حیرت تو یہ کہ وہاں پھولوں کے زیر سایہ کانٹے اگتے ہیں ۔

 
رہتی ہے سدا نرگسِ بیمار کی تر آنکھ
دل طالبِ نظارہ ہے، محرومِِ نظر آنکھ

معانی: نرگسِ بیمار: نرگس کے پھول کو اس کی آنکھ کی سی شکل کی بنا پر محبوب کی نشیلی اور شرمیلی آنکھ سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ تر: گیلی: طالب: مانگنے، چانے والا، خواہشمند ۔ محرومِ نگاہ: نگاہ سے عاری، خالی ۔
مطلب: نرگس کے پھول نظارے کی تڑپ تو رکھتے ہیں لیکن ان کی آنکھیں بصارت سے محروم ہیں ۔

 
دل سوختہَ گرمیِ فریاد ہے شمشاد
زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد

معانی: دل سوختہ گرمیِ فریاد: دہائی کی گرمی سے جلے ہوئے دل والا ۔ شمشاد: سرو کی قسم کا ایک درخت جس کے پتے گول، چھوٹے اور موٹے ہوتے ہیں ، یہ ہمیشہ سرسبز رہتا ہے ۔ زندانی: قیدی، مراد زمین میں اگا ہوا جو جگہ سے ہل نہیں سکتا ۔
مطلب: شمشاد کا درخت فریاد کی حدت سے تپش آمادہ رہتا ہے ۔ بظاہر وہ آزاد ہے پھر بھی قیدی کی حیثیت کا حامل ہے ۔

 
تارے شررِ آہ ہیں انساں کی زباں میں
میں گریہَ گردوں ہوں گلستاں کی زباں میں

معانی: شررِ آہ: آہ کی چنگاری ۔ گریہَ گردوں : آسمان کا رونا ۔
مطلب: خوبصورت ستارے بھی انسان کی زبان میں آہوں کے شرارے ہیں اور اہل گلشن مجھے بھی آسمان کے آنسووَں سے تعبیر کرتے ہیں ۔

 
نادانی ہے یہ گردِ ز میں طوفِ قمر کا
سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغِ جگر کا

معانی: گردِ ز میں : ز میں کے اردگرد ۔ طوف: چکر لگانا ۔ درماں : علاج ۔ داغِ جگر: دل کا زخم، مراد وہ داغ جو چاند میں نظر آتا ہے ۔
مطلب: چاند جو زمین کی محبت میں گرفتار ہو کر وہاں کا طواف کرتا ہے ناداں ہے حقیقت یہ ہے کہ اس جہانِ فانی کی بنیاد محض ہوا پر قائم ہے ۔

 
بنیاد ہے کاشانہَ عالم کی ہوا پر
فریاد کی تصویر ہے قرطاسِ فضا پر

معانی: کاشانہَ عالم: دنیا کا محل یعنی دنیا ۔ ہوا پر بنیاد ہونا: مضبوط نہ ہونا جو کسی بھی وقت گر سکتا ہے ۔ قرطاس: کاغذ، صفحہ ۔
مطلب: حقیقت یہ ہے کہ اس جہان فانی کی بنیاد محض ہوا پر قائم ہے اور یہ حقیقت غم و اندوہ و نالہ و فغاں کا مرقع ہے ۔ اس نظم میں اقبال نے دنیا کی بے ثباتی کی تصویر کشی کی ہے ۔