تن بہ تقدیر
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
معانی: تن بہ تقدیر: جسم کو تقدیر کے حوالے کر دینا اور اپنی کوشش ترک کر دینا ۔ ترکِ جہاں دنیا چھوڑ دینا ۔ مہ و پرویں : ستاروں کے نام ۔ امیر: سالار ۔
مطلب: علامہ جب یہ کہتے ہیں کہ اسی قرآن میں اب ترک جہاں کی تعلیم ہے تو اس سے یہ مراد نہ لیں کہ واقعی قرآن بدل گیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان نے اپنی غلط تاویلوں سے قرآن سے ایسے معانی اخذ کرنے شروع کر دیے ہیں جن سے مراد دنیا کا ترک کرنا ہے ۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ قرآن تو مسلمان کو چاند اور ستاروں کی تسخیر کی تعلیم دیتا ہے ۔ لیکن آج کا مسلمان ہے کہ وہ رہبانیت اور ترک دنیا کو پسند کیے ہوئے ہے ۔ یہ سب کچھ تقدیر کا غلط مفہوم پیدا کرنے اور سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے ۔
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
معانی: انداز: طریقہ ۔ نہاں : پوشیدہ ۔
مطلب: کبھی یہ بات تھی کہ مسلمان جس چیز کا ارادہ کرتا تھا اس کو حاصل کر لیتا تھا وہ اپنی تقدیر آپ بناتا تھا ۔ وہ جو ارادہ کرتا تھا خدا اس کو پورا کر دیتا تھا لیکن آج وہی مسلمان تقدیر پر شاکر، بے عمل بیٹھا ہے ۔ اس کے ہر عمل میں مایوسی اور بے یقینی نظر آ رہی ہے ۔
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
معانی: ناخوب: برا ۔ خوب: اچھا ۔ غلامی میں : غلامی نے ہمیں ناکارہ کر دیا ۔ ضمیر: فکر سوچ ۔
مطلب: علامہ نے یہاں ایک اصول بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ جو قوم غلام ہو جاتی ہے وہ اپنے مالک کے حکم کے تابع ہوتی ہے ۔ اس طرح اس کے نزدیک اس کے مالک کی پسند اور ناپسند کے پیش نظر اچھی چیز آہستہ آہستہ بری اور بری چیز اچھی ہو جاتی ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی وہ کہتے ہیں یہی کچھ ہوا ہے ۔ غلام بن کر مسلمان قوم تقدیر پر شاکر ہو گئی ہے اور اسے صفت اور اچھائی سمجھنے لگی ہے حالانکہ آزادی میں اس کے بالکل الٹ بات تھی ۔ مسلمان اپنی تقدیر آپ بناتا تھا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ غلامی کی زندگی میں اچھائی برائی بن گئی ہے اور ناخوب شے خوب کی صورت میں ڈھل گئی ہے ۔