Please wait..

سر اکبر حیدری صدر اعظم حیدر آباد دکن کے نام
یوم اقبال کے موقع پر توشہ خانہ حضور نظام کی طرف سے جو صاحبِ صدر اعظم کے ماتحت ہے ایک ہزار روپیہ کا چیک بطور تواضح موصول ہونے پر

 
تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہِ پرویز
دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات

تعارف: دکن برصغیر کے جنوب میں دور انگریزی میں ایک بہت بڑی ریاست تھی ۔ جس کا نواب نظام الملک کہلاتا تھا ۔ علامہ کے فوت ہونے کے چند ماہ پہلے جب پورے متحدہ ہندوستان میں یوم اقبال منایا گیا دکن کے صدر حیدری نے ایک ہزار روپے کا چیک علامہ کو بھیجا تھا اور ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ یہ چیک میں نے ریاست کے سرکاری توشہ خانے سے اپنی ذاتی کوشش کے بعد بھجوایا ہے ۔ علامہ نے یہ خط پڑھ کر چیک واپس کر دیا اور اپنے تاثرات اس نظم میں قلم بند کیے ۔
معانی: فرماں حکم ۔ شکوہ: شوکت ۔ پرویز: ایران کا ایک بادشاہ ۔ قلندر: وہ درویش جو اللہ کے سوا ہر کسی سے بے نیاز ہو ۔ ملوکانہ صفات: شاہانہ صفتیں ۔
مطلب: یہ اللہ کا حکم تھا کہ ایران کے بادشاہ پرویز جیسا دبدبہ اور شوکت اس درویش کو عطا کیا جائے جو میرے سوا ہر ایک سے بے نیاز ہے جو بہ ظاہر تو فقر و فاقہ میں مبتلا ہے لیکن بہ باطن اپنے اندر شاہانہ صفات رکھتا ہے ۔ یہاں اس درویش سے مراد علامہ خود ہیں َ

 
مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر
حُسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات

معانی: شہنشاہی کر: بادشاہوں اور امیروں کی طرح روپیہ خرچ کر ۔ حسن تدبیر: منصوبہ کی خوبصورتی ۔ آنی: جو لمحہ بھر کے لیے ہے ۔ فانی: جو مٹ جانے والا ہے ۔ ثبات دے: دوام بخش، ہمیشگی عطا کر ۔
مطلب: خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ یہ رقم میں جو بھیج رہا ہوں اسے اچھی منصوبہ بندی سے اگر خرچ کرو گے تو یہ تمہارے لیے وقتی فائدہ اور آسائش مہیا کرنے کے علاوہ کافی دیر تک کارآمد بھی ہو گا ۔ اور تم اس سے امیروں اور بادشاہوں کی طرح کی عیش کی زندگی بسر کر سکو گے ۔

 
میں تو اس بارِ امانت کو اٹھاتا سرِ دوش
کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانندِ نبات

معانی: بار امانت: امانت کا بوجھ ۔ سردوش: کندھے پر ۔ کام درویش: درویش کے حلق، غریب کے منہ ۔ تلخ: کڑوی ۔ مانند: مثل ۔ نبات: مصری، شکر ۔
مطلب : اقبال کہتے ہیں میں چونکہ درویش شخص ہوں اور غیروں کی کڑوی چیزوں کو شکر سمجھ کر حلق میں اتار لیتا ہوں اس لیے میرے لیے یہ بھی ممکن ہو سکتا تھا کہ میں یہ تلخ حقیقت بھی قبول کر لیتا اور بھیجے ہوئے چیک کو قبول کر لیتا لیکن سر اکبر حیدری کا یہ لکھنا کہ یہ رقم سرکاری خزانے سے میری کوشش کی وجہ سے بھیجی جا رہی ہے مجھے پسند نہ آئی ۔ اور میرے کندھوں نے احسان کے اس بوجھ کو برداشت نہیں کیا ۔

 
غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات

معانی: غیرت فقر: فق کی خودداری ۔ فقر بمعنی درویشی ۔ خدائی: حکومت، حکمرانی ۔ زکات: ایک مذہبی اسلامی ٹیکس جو امیروں سے لے کر غریبوں کو دیا جاتا ہے ۔ اصل لفظ زکواۃ ہے ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ سر اکبر حیدری کا اپنے خط میں یہ لکھنا کہ یہ رقم میری بطور صدر ریاست کوشش کی وجہ سے آپ کو بھیجی جا رہی ہے میرے لیے کسی امیر سے ضرورت مند اور غریب ہونے کے اعتبار سے زکواۃ لینے کے برابر تھے ۔ اس لیے میری درویشی کی خودداری کے لیے قابل قبول نہ تھی ۔ کیونکہ درویش تو فقر و فاقہ کی حالت میں بھی منعموں ، امیروں اور شاہوں سے بے نیاز ہو کر زندگی گزارتا ہے