Please wait..

(21)

 
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

معانی: بحر: سمندر ۔ آبجو: چھوٹی نہر ۔
مطلب: اس نظم کے مطلع میں اقبال خودی کی تعریف پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خودی تو ایسا بے پایاں سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ تو نے تو خودی کو ایک معمولی ندی سمجھ لیا ہے ۔ یہی تیری کج فہمی اور کم ہمتی ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خداوند عزوجل نے انسان کو بے پناہ قوتیں عطا کی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے ان قوتوں کا ادراک نہیں ہے ۔

 
طلسمِ گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زجاج کی یہ عمارت ہے سنگِ خارہ نہیں

معانی: طلسمِ گبندِ گردوں : آسمان کا جادو ۔ زجاج: شیشہ ۔ سنگِ خارہ: مضبوط پتھر ۔
مطلب: انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ آسمان کے طلسم کو توڑ کر رکھ دے ۔ علامہ یہاں علامتی انداز میں بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ طلسم تو شیشے کی عمارت کے مانند ہے سنگ خارا یعنی سخت پتھر کی نہیں چنانچہ سنگ خارا کے مقابلے میں شیشے کی عمارت کو توڑنا سہل ہے ۔

 
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلہَ مردِ ہیچ کارہ نہیں

معانی: مردِ ہیچ کارہ: ناکارہ شخص ۔
مطلب: ایسے جانباز لوگ جو کچھ کر گزرنے کی ہمت و استطاعت رکھتے ہیں ۔ ان کے روبرو اگرخودی ایک سمندر کے مانند ہے تو اس میں غوطہ لگا کر اپنی ہمت و جرات کے طفیل پھر سے صفحہ آب پر ابھر سکتے ہیں لیکن یہ جان لینا چاہیے کہ یہ کام نکمے اور ناکارہ لوگوں کا نہیں ہو سکتا بلکہ جواں ہمت لوگوں سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے ۔

 
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابعِ ستارہ نہیں

مطلب: انجم شناس: ستاروں کا علم جاننے والا ۔
مطلب: انسان سے مخاطب ہوتے ہوئے حکیم الامّت کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو ستارہ شناسی کے دعویدار ہیں تیرے مقام اور مرتبے کو کس طرح سے جان سکتے ہیں کہ توُتو ایک زندہ وجود ہے اور ستاروں کے تابع تو نہیں ہے اور ستاروں کا محدود علم رکھنے والے تیرے مقام کو کس طرح سے جان سکتا ہے ۔

 
یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہے
تری نگہ میں ابھی شوخیِ نظارہ نہیں

مطلب: روایت تو یہی ہے کہ جبرئیل اور حور و غلماں خدائے لا یزل کی پیدا کردہ بہشت میں موجود ہیں لیکن اگر تجھ میں بصیرت اور دوربینی کے عنصر موجود ہوں تو اس حقیقت کو جان لے گا کہ حور و غلماں ، جبرئیل اور بہشت تو خود تیرے سامنے موجود ہیں لیکن اس کو جاننے کے لیے چشم بصیرت درکار ہے ۔ بدقسمتی سے اس خصوصیت سے تو بہرہ ور نہیں ہے ۔

 
مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں

معانی: پیرہن: لباس ۔
مطلب: میرا جذبہ عشق تو اس قدر حقیقت شناس ہے کہ اپنے عہد اور اس کے معاشرے سے پوری طرح سے آگاہ ہے یہی وجہ ہے کہ مجھے سر چھپانے کے لیے وہ لباس عطا کیا جو پارہ پار ہ نہیں ہے ۔

 
غضب ہے عینِ کرم میں بخیل ہے فطرت
کہ لعلِ ناب میں آتش تو ہے شرارہ نہیں

معانی: بخیل: کنجوس ۔ لعلِ ناب: اصل ہیرا ۔
مطلب: یہ امر یقینا حیرت کا باعث ہے کہ فطرت اپنی کرم گستری میں ان کمال تک پہنچنے کے باوجود بخل اور کنجوسی سے بعض مرحلوں میں کام لیتی ہے جس کے مثال لعل خالص ہے اس کا رنگ تو انتہائی سرخ شعلوں کے مانند ہے تاہم اس میں سے کوئی چنگاری نہیں جھڑتی ۔ دیکھا جائے تو یہ غیر فطری سا عمل ہے لیکن اقبال نے فطرت کے بخل کے بارے میں بات اسی حوالے سے کی ہے ۔