سیرِ فلک
تھا تخیل جو ہم سفر میرا آسماں پر ہُوا گزر میرا
معانی: تخیل: ذہن میں آیا ہوا خیال ۔
مطلب: کہا جاتا ہے کہ اقبال نے اس نظم میں قرآن پاک کی سورہ توبہ کی34 ویں آیت کی منظوم تفسیر پیش کی ہے ۔ اس آیت میں ارشاد ہوا ہے جن لوگوں نے سونا چاندی جمع کیا اور اس کو اللہ کی راہ میں صرف کرنے سے گریز کیا، قیامت کے روز ان کی پیشانی، پشت اور پہلو کو اسی گرم کیے ہوئے سونے چاندی سے داغا جائے گا ۔ علامہ اقبال نے اسی حوالے سے اور دوسرے زاویے سے یہی بات کہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ دوزخ بجائے خود گرم نہیں ہے بلکہ جب بداعمال اور گنہگار لوگ وہاں بھیجے جاتے ہیں تو ان کی بداعمالیاں ہی شعلے بن کر انہیں جلاتی ہیں ۔ چنانچہ اس نظم میں اقبال کہتے ہیں ۔ میں اپنے تخیل کے ساتھ آسمان کی سیر کر رہا تھا اس کی وسعتوں میں اڑتا پھر رہا تھا ۔
اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی جاننے والا چرخ پر میرا
معانی: چرخ: آسمان ۔
مطلب: عجب بات یہ ہے کہ وہاں مجھے جاننے والا کوئی بھی نہ تھا ۔
تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے رازِ سربستہ تھا سفر میرا
معانی: رازِ سربستہ: چھپا ہوا بھید ۔
مطلب: اس لمحے وہاں چمکتے ہوئے ستارے مجھے حیرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے ۔ اس لیے کہ میرے سفر کا حال تو ایک راز کی مانند تھا جس کی حقیقت سے کسی کو آگاہی حاصل نہ تھی ۔
حلقہَ صبح و شام سے نکلا اس پرانے نظام سے نکلا
مطلب: میں اس سفر میں زمان و مکان اور صبح و شام کے دائرے سے نکل گیا ۔ یہی نہیں بلکہ کائنات کے اس پرانے نظام کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گیا ۔
کیا سناؤں تمہیں اِرم کیا ہے خاتمِ آرزوئے دیدہ و گوش
معانی: اِرم: بہشت ۔ خاتم آرزوئے دیدہ و گوش: آنکھوں اور کانوں کی خواہش ختم کرنے والی یعنی دیکھنے اور سننے کی آرزو ختم کرنے والی ۔
مطلب: اے لوگو! تمہیں کیا بتاؤں کہ اس سفر کے دوران میں نے جنت کا نظارہ کیا ۔ جنت کیسی ہے اس کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اس کو دیکھنے سے کانوں کی قوت سماعت اور آنکھوں کی بصارت کی تشنگی دور ہو جاتی ہے اور جملہ عناصر کی آرزووَں کی تکمیل ہو جاتی ہے ۔ مراد یہ کہ جنت میں تمام انسانی خواہشات کی تکمیل کا سامان موجود ہے ۔
شاخِ طوبیٰ پہ نغمہ ریز طیور بے حجابانہ حور جلوہ فروش
معانی: طوبیٰ: جنت کا ایک درخت ۔ نغمہ ریز: چہچہانے والے ۔ طیور: طائر کی جمع، پرندے ۔ بے حجابانہ: پردے کے بغیر، کھل کر ۔ جلوہ فروش: مراد اپنا دیدار کرانے والی ۔
مطلب: جنت میں جو مناظر نگاہوں کے سامنے سے گزرے ان کے مطابق میں نے دیکھا کہ شاخ طوبیٰ پر بیٹھے ہوئے پرندے نغمہ سرا ہیں اور حمد باری تعالیٰ میں مصروف ہیں ۔ حوریں کسی حجاب اور پردے کے بغیر اپنے جلوے دکھا رہی ہیں ۔
ساقیانِ جمیل جام بدست پینے والوں میں شورِ نوشانوش
معانی: ساقیانِ جمیل: شراب طہور پلانے والے خوبصورت ساقی یعنی غلمان ۔ جام بدست: ہاتھوں میں شراب کے پیالے لیے ہوئے ۔ شورِ نوشانوش: پیو اور خوب پیو کا شور، ہنگامہ ۔
مطلب: انتہائی خوبصورت ساقی حاضرین کو شراب پلانے میں مصروف ہیں اور پینے والوں میں ہر چہار جانب ہاوَ ہو کا ہنگامہ برپا ہو رہا ہے ۔
دُور جنت سے آنکھ نے دیکھا ایک تاریک خانہ سرد و خموش
معانی: تاریک خانہ: اندھیرے والی جگہ ۔ سرد: ٹھنڈا ۔ خموش: خاموش، چپ کی حالت ۔
مطلب: اسی لمحے میں نے جنت سے دور کچھ فاصلے پر ایک جگہ دیکھی جس میں تاریکی پھیلی ہوئی تھی ۔ یہ جگہ بے حد پرسکوت اور سرد واقع ہوئی تھی ۔
طالعِ قیس و گیسوئے لیلیٰ اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش
معانی: طالعِ قیس: مجنوں کا نصیبہ، مراد سیاہ ۔ گیسوئے لیلیٰ: لیلیٰ کی زلفیں ، یعنی سیاہ ۔ دوش بدوش: کندھے سے کندھا ملائے ہوئے یعنی تاریکی میں ایک جیسے ۔
مطلب: یوں لگتا تھا کہ اس مقام کی تاریکی قیس کے مقدر اور لیلیٰ کے گیسووَں کی طرح تھی ۔
خنک ایسا کہ جس سے شرما کر کُرہَ زمہریر ہو روپوش
معانی: خنک: ٹھنڈا، ٹھنڈی ۔ کرہَ زمہریر: ہوا کے دائرے کا وہ حصہ جو تمام کائنات میں سب سے زیادہ ٹھنڈا ہے ۔ روپوش: شرم کے مارے منہ چھپائے ہوئے ۔
مطلب: یہ مقام اس قدر سرد تھا کہ جس کے مقابل زمین کے گرد انتہائی سرد حلقہ بھی نہ تھا ۔
میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی حیرت انگیز تھا جوابِ سروش
معانی: کیفیت: حالت، صورت حال ۔ حیرت انگیز: حیرانی بڑھانے والا ۔ سروش: فرشتہ ۔
مطلب: میں نے ایک فرشتے سے اس سرد ترین مقام کے بارے میں استفسار کیا تو اس کا جواب بے حد حیران کن تھا ۔
یہ مقامِ خنک جہنم ہے نار سے، نور سے تہی آغوش
معانی: نار: آگ ۔ نور: روشنی ۔ تہی آغوش: جس کے گود خالی ہو، مراد خالی ۔ جہنم: دوزخ ۔
مطلب: فرشتے نے کہا کہ یہی سرد مقام جہنم ہے جو ہر نوع کی جو ہر طرح کی حرارت اور روشنی سے خالی ہے ۔
شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے جن سے لرزاں ہیں مردِ عبرت کوش
معانی: مستعار: دوسروں سے مانگے ہوئے ۔ لرزاں : کانپنے والا ۔ مردِ عبرت کوش: دوسروں کے برے انجام سے سبق لینے والا انسان ۔
مطلب: اس کے وہ شعلے جن سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ خوفزدہ ہیں عملاً مانگے کے ہوتے ہیں ۔
اہلِ دنیا یہاں جو آتے ہیں اپنے اَنگار ساتھ لاتے ہیں
معانی: انگار: شعلے، آگ ۔ اپنے ساتھ لانا: مراد اپنے بُرے اعمال آگ کی صورت میں لانا ۔
مطلب: البتہ یہ ضرور ہے کہ جو گنہگار یہاں سزا کے طور پر لائے جاتے ہیں وہ اپنے حصے کی آگ اور شعلے بھی ہمراہ لاتے ہیں ۔