Please wait..

محبت

 
عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذتِ رم سے

معانی: عروس شب: رات کی دلہن ۔ زلفیں : جمع زلف، بالوں کا لچھا ۔ خم: مڑے ہونا ۔ لذتِ رَم: مراط طلوع ہو کر غائب ، غروب ہونے کا مزہ ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال فرماتے ہیں کہ جب خالق ہر دو جہاں نے کائنات کو تخلیق کیا تو اس کے ابتدائی لمحات میں جملہ موجودات کی کیفیات اور صورت حال یہ تھی کہ شب کی دلہن کی زلفیں پیچ و خم سے محروم تھیں ۔ آسمان پر ستاروں کی گردش اور ان کی منزل کی طر ف گامزن ہونے کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا ۔

 
قمر اپنے لباسِ نو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلم سے

معانی: قمر: چاند ۔ لباسِ نو: نیا لباس ۔ بیگانہ سا لگنا: غیر غیر سا معلوم ہونا ۔ گردش: چکر کاٹنے کا عمل ۔
مطلب: چاند کو فطرت نے جو نیا لبادہ فراہم کیا تھا اس میں وہ اجنبی سا محسوس ہوتا تھا ۔ وہ بھی ہمہ وقت گردش کے طے شدہ اصولوں سے آگاہی نہ رکھتا تھا ۔

 
ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا
مذاقِ زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے

معانی: ظلمت خانہ: تاریک جگہ ۔ ابھرنا: اوپر کو اٹھنا ۔ مذاقِ زندگی: زندگی گزارنے کا ذوق ۔ پہنائے عالم: کائنات کا پھیلاوَ ۔
مطلب: اس عالم رنگ و بو کا نیا نیا آغاز ہوا تھا اور اس کے جملہ عناصر ان تقاضوں سے محروم تھے جن کا تعلق زندگی سے ہے ۔

 
کمالِ نظمِ ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشمِ خاتم سے

معانی: کمالِ نظم ہستی: کائنات کی ترتیب کا مکمل ہونا ۔ ہویدا: ظاہر ۔ چشم خاتم: انگوٹھی کی آنکھ ۔
مطلب: یہ کائنات جو اب پایہ تکمیل کو پہنچ کر ہماری نظروں کے سامنے ہے ابھی اس کی نئی نئی ابتدا ہوئی تھی ۔

 
سنا ہے عالمِ بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
صفا تھی جس کی خاکِ پا میں بڑھ کر ساغرِ جم سے

معانی: عالم بالا: اوپر کی آسمانی دنیا ۔ کیمیا گر: تانبے کو سونا بنانے والا، مراد حضور اکرم کا نورِ مبارک جس کی روشنی سے ساری کائنات پیدا ہوئی ۔ صفا: پاکیزگی ۔ خاکِ پا: پاؤں کی گرد ۔ ساغرِ جم: ایران کے قدیم بادشاہ جمشید کا شراب کا پیالہ ۔
مطلب: سنا ہے کہ ان لمحات میں آسمان پر ایک ایسے کیمیا گر کا وجود پایا جاتا تھا ۔ اس کیمیا گر کو مٹی سے سونا بنانے پر قدرت حاصل تھی اور جس کے پاؤں کی دھول جمشید کے جام سے بھی زیادہ مصفا تھی ۔ فی الواقعہ یہ کیمیا گر سوائے آدم کے اور کوئی نہ تھا ۔

 
لکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسیر کا نسخہ
چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشمِ روحِ آدم سے

معانی: اکسیر: مراد لازمی اثر کرنے والی دوا ۔ نسخہ: کاغذ کا پرچہ جس پر حکیم دوائیں تجویز کرتا ہے ۔
مطلب: ان دنوں عرش معلیٰ کے کسی گوشے میں اکسیر کا ایک ایسا نسخہ آویزاں تھا جس کو فرشتے ہر لمحے اس انسان کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔

 
نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسمِ اعظم سے

معانی: تاک میں رہنا: گھات میں رہنا ۔ اسمِ اعظم: خدا تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک بزرگ تر نام جس کے ورد سے دعا فوراً قبول ہوتی ہے ۔
مطلب: لیکن یہ کیمیا گر یعنی انسان ہر لمحے اس نسخے کی تاک میں رہتا تھا کہ کب فرشتوں کی آنکھ جھپکے اور وہ اس نسخے کو لے اڑے ۔ اس لیے کہ یہ انسان تو اس نسخے کو اسم اعظم سے بھی زیادہ اہم اور قیمتی تصور کرتا تھا ۔

 
بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب
تمنائے دلی آخر بر آئی سعیِ پیہم سے

معانی: تسبیح خوانی: اللہ کے نام کا ورد کرنا ۔ تمنائے دلی بر آ نا: دل کی خواہش پوری ہونا ۔ سعی پیہم: لگاتار کوشش ۔
مطلب: ایک روز بالاخر وہ ایک حمد باری تعالیٰ کے بہانے عرش کی جانب بڑھا اور بڑی چابکدستی کے ساتھ فرشتوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ نسخہ حاصل کر لیا بالاخر اپنی سعی پیہم کے سبب اس کی دلی مراد بر آئی ۔

 
پھرایا فکرِ اجزا نے اسے میدانِ امکاں میں
چھپے گی کیا کوئی شے بارگاہِ حق کے محرم سے

معانی: میدانِ امکاں : مراد یہ کائنات ۔ بارگاہِ حق: خدا کا دربار ۔ محرم: واقف ۔
مطلب: نسخے کے حصول کے بعد انسان کو اس کے اجزاء کی فراہمی کے لیے سرگرداں ہونا تھا ۔ لیکن جو فرد بارگاہ خداوندی کا محرم ہو اس کی نگاہوں سے کوئی شے بھی چھپی نہیں رہ سکتی ۔

 
چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغِ جگر مانگا
اُڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلفِ برہم سے

معانی: داغِ جگر: مراد وہ داغ جو چاند میں ہوتا ہے ۔ تیرگی: سیاہی، تاریکی ۔ اڑانا: چرانا ۔ شب: رات ۔ زلفَ برہم: بکھرے ہوئے بال ۔
مطلب: چنانچہ اس نے اس نسخے کے اجزائے ترکیبی کی تلاش میں ساری دنیا کو کھنگھال ڈالا اور بالاخر اسے اس سروردی کا صلہ کامیابی کی صورت میں حاصل ہو گیا ۔ چنانچہ اس نے ستاروں سے تھوڑی سی چمک حاصل کی ۔ چاند میں جو داغ ہے اس کا ایک جزو اور تھوڑی سی رات کی سیاہی بھی جمع کر لی ۔

 
تڑپ بجلی سے پائی، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفس ہائے مسیحِ ابن مریم سے

معانی: پاکیزگی: پاک صاف ہونے کی حالت ۔ نفسہائے: جمع نفس،سانس، پھونکیں ۔ مسیح ابن مریم: حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ مسیح اللہ جو اپنے دم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔
مطلب: ان عناصر کی فراہمی کے بعد اس کیمیا گر یعنی انسان نے دیگر اجزا ء کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں اور بجلی کی تڑپ کا کچھ حصہ حاصل کرنے کے لیے جو حوروں کی پاکیزگی اور حضرت عیسیٰ کے انفاس کی حرارت بھی حاصل کر لی ۔

 
ذرا سی پھر ربوبیت سے شانِ بے نیازی لی
ملک سے عاجزی، افتادگی تقدیرِ شبنم سے

معانی: ربوبیت: پروردگاری ۔ شانِ بے نیازی: بے پروائی کا انداز ۔ ملک: فرشتہ ۔ عاجزی: خود کو کمتر سمجھنا ۔ افتادگی: گرنا ۔
مطلب: اس کے بعد بھی اس نے نسخے کی تکمیل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں بالاخر وہ خداوند عزوجل کی بے نیازی کے علاوہ فرشتوں کا عجز و انکسار اور شبنم کی خاکساری کے حصول میں بھی کامیاب ہو گیا ۔

 
پھر ان اجزا کو گھولا چشمہَ حیوان کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرشِ اعظم سے

معانی: اجزا: جمع جزو، حصے، ٹکڑے ۔ چشمہَ حیواں : آب حیات کا چشمہ ۔ مرکب: کئی چیزیں اکٹھی ملائیں ہوئیں ۔ عرشِ اعظم: سب سے اوپر والا عرش ۔
مطلب: اس نایاب اور گراں قدر نسخے کی تکمیل کے لیے اس کے اجزائے ترکیبی کی فراہمی کوئی آسان کام نہ تھا لیکن انسان نے اپنی ہمت اور حکمت و دانش کے طفیل اس عقدہَ لا ینحل کو حل کر کے ہی دم لیا ۔ اب معاملہ صرف اسی قدر رہ گیا تھا کہ اجزائے ترکیبی کے حصول کے بعد نسخے کی تکمیل کی جائے ۔ چنانچہ تمام اشیاَ کو یکجا کر کے اس نے آب حیات میں گھولا اور اس مرکب کا نام محبت رکھا ۔

 
مہوَّس نے یہ پانی ہستی نوخیز پر چھڑکا
گرہ کھولی ہُنر نے اس کے گویا کارِ عالم سے

معانی: مہوس: لالچی ۔ ہستی نوخیز: تازہ تازہ وجود میں آئی ہوئی زندگی ۔ گرہ کھولنا: مشکل حل کرنا ۔ ہنر: کا یگری ۔ کارِ عالم: دنیا کا کاروبار، معاملہ ۔
مطلب: نسخے کی تکمیل کے بعد اس مرکب کو انسان نے ان لمحات میں موجود کائنات کی ہر شے پر چھڑکا اور یوں ساری زندگی حرکت میں آ گئی ۔

 
ہوئی جنبش عیاں ، ذروں نے لطفِ خواب کو چھوڑا
گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے

معانی: جنبش: ہلنا ۔ عیاں : ظاہر ۔ لطف خواب: نیند کا مزہ ۔ ہمدم: ساتھی ۔
مطلب: تمام خوابیدہ ذرات بیدار ہو گئے اور اٹھ اٹھ کر اپنے ہم نفسوں سے باہم گل ملنے لگے ۔

 
خرامِ ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے
چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے

معانی: خرام ناز: ادا سے چلنا ۔ آفتابوں : جمع آفتاب، سورج ۔ چٹک: کھلنا ۔ داغ: نشان ۔ لالہ زار: لالہ کے پھولوں کا باغ ۔
مطلب: اس مرکب کے چھینٹوں کا اثر یہ ہوا کہ آفتاب نے اپنی گردش کا آغاز کر دیا اور ستارے بھی منزل کی جانب روانہ ہو گئے ۔ باغوں میں غنچے چٹک کر پھول بن گئے اور لالے کو اس کا داغ حاصل ہو گیا ۔ مراد یہ ہے کہ یہ محبت کا جذبہ ہی ہے جس کے طفیل کائنات کی ہر شے متحرک ہے اوراس میں زندگی کی لہر دوڑ رہی ہے ۔