Please wait..

(۸)

 
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی

معانی: بادہ و جام: شراب اور پیالہ یعنی اسلامی جذبہ و شوق ۔ میرا مقام: میری اصل حیثیت ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال خدائے عزوجل سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے پالنے والے مجھے وہی جذبہ عطا کر دے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں تھا اور جس جذبے کے تحت انھوں نے عروج حاصل کیا تھا ۔ اس جذبے کے حصول سے ہی میں وہی مرتبہ حاصل کر سکتا ہوں جو اس دور کے مسلمانوں کا تھا ۔

 
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی

معانی: میخانے: شراب خانے یعنی اسلامی تعلیم کے دفتر ۔ فیض: عطا ۔
مطلب: اس شعر میں بھی اقبال نے ہندوستان میں اپنے عہد کی صورت حال اور گذشتہ تین سو سال کے دوران ملت اسلامی پر جو جمود طاری رہا ہے اس کے حوالے سے وہ دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے فیض خداوندی عام ہو اور یہ جمود ٹوٹ جائے ۔

 
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی

معانی: مینائے غزل: غزل کی صراحی یعنی میرا کلام ۔ حرام: ناجائز ۔
مطلب: شاعر کا کہنا ہے کہ میری تخلیقات میں کہیں کہیں دین کے فکری اجزاء موجود ہیں ۔ شریعت کے دعویدار شیخ کو ان کا وجود بھی گوارا نہیں ۔ بالفاظ دگر آج کا مولوی اس قدر رجعت پسند ہے کہ اسلام کے فکری نظام کے حوالے سے اسکے ترقی کے پہلو کو برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ۔

 
شیر مردوں سے ہوا بیشہَ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و مُلّا کے غلام اے ساقی

معانی: شیر مردوں : بہادر آدمی ۔ بیشہ: جنگل ۔ تحقیق: حقیقت تلاش کرنا ۔ تہی: خالی ۔ صوفی و ملا: تصوف اور ملائیت ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ دین کو فکری سطح پر پرکھنے کی بجائے جذباتیت اور عصبیت کے حوالے کیا جا رہا ہے اس کے ذمے دار عملاً وہ لوگ ہیں جو ذہنی اور فکری سطح پر صوفی اور ملا کے پیروکار ہیں اور اپنے دینی امور میں کسی قسم کے اجتہاد کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ۔

 
عشق کی تیغِ جگر دار اُڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی

معانی: عشق کی تیغِ جگر دار: عشق کی مضبوط تلوار ۔ علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی: علم کے ہاتھ میں خول رہ گیا ۔
مطلب: یوں محسوس ہوتا ہے کہ بنیادی عقیدے اور جذبے سے جو عشق تھا وہ ختم ہو کر رہ گیا ہے جس کے باعث وہ علم بھی اسی طرح کی حیثیت کا حامل بن گیا ہے جیسے کہ میدان کا رزار میں کوئی تلوار نکالنا چاہے تو اسے نیام خالی ملے ۔

 
سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات
ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی

معانی: روشن : چمک دار ۔ سوزِ سخن: کلام کی گرمی ۔ مرگِ دوام: ہمیشہ کی موت ۔
مطلب: انسان میں کچھ حاصل کرنے اور جذب کرنے کا شعور ہو تو بات میں وزن پیدا ہو جاتا ہے اور جب یہ شعور ہی موجود نہ ہو تو کتنی ہی اہم بات کہی جائے وہ بے معنی ہی نظر آتی ہے ۔ بالفاظ دگر انسان حقیقت شناس ہو تو حق بات اس کی زندگی کے لیے ایک نصب العین بن جاتی ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو کتنا ہی اہم قول ہو وہ بے معنی بن جاتا ہے ۔

 
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی

معانی: مہتاب: چاند ۔ محروم: خالی ۔ ماہِ تمام: پورا چاند ۔
مطلب: اس شعر میں اپنے مخصوص انداز و استعاروں میں بارگاہ ایزدی میں درخواست گزار ہیں کہ میری قوم بے شک ادبار کا شکار ہے لیکن تو براہ کرم اسے اپنے بے پناہ وسائل سے محروم نہ رکھ اور اسے اپنے الطاف و کرم سے نواز دے ۔