دردِ عشق
اے دردِ عشق! ہے گُہر آبدار تو نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
معانی: گہرِ آب دار: چمکدار موتی ۔ نامحرم: ناواقف، غیر، بیگانہ ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال عشق کے جذبے میں جو کسک ہوتی ہے اس سے مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تو ایک انتہائی چمکدارموتی کی مانند ہے لہذا تجھ پر لازم ہے کہ جو اس جذبے سے آگاہی نہیں رکھتے ان کے روبرو اپنے وجود کو آشکار نہ کرے ۔
پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے ظاہر پرست محفلِ نو کی نگاہ ہے
معانی: پنہاں : چھپا ہوا ۔ تہِ نقاب: پردے کے نیچے ۔ جلوہ گاہ: ظاہر ہونے کی جگہ ۔ ظاہر پرست: مراد ظاہر کی دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والی ۔
مطلب: تیری کیفیت تو اس حسین چہرے کی سی ہے جو نقاب میں چھپا ہونے کے باوجود بھی اپنی تابندگی مظہر ہوتا ہے ۔ میں تجھے اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ عہد نو کے لوگ محض ظاہری چیزوں کو ہی اہمیت دیتے ہیں اور باطن تک ان کی نظر نہیں پہنچتی ۔
آئی نئی ہوا چمنِ ہست و بود میں اے دردِ عشق! اب نہیں لذت نمود میں
معانی: نئی ہوا: مراد نئے طریقے، خیالات، مراد مادہ پرستی ۔ چمنِ ہست و بود: مراد یہ دنیا ۔ نمود: ظاہر ہونے کی حالت ۔
مطلب: اے دردِ عشق! اس کائنات میں تو ایسی ہوا چل پڑی ہے کہ باشعور لوگ اب اپنے روبرو ظاہر اشیا سے لطف نہیں اٹھا سکتے ۔
ہاں ، خود نمائیوں کی تجھے جستجو نہ ہو منت پذیر، نالہَ بُلبل کا تو نہ ہو
معانی: خود نمائیوں : جمع خود نمائی، خود کو ظاہر کرنے کی حالتیں ۔
مطلب: چنانچہ تیرے لیے لازم ہے کہ اپنے وجود کو ظاہر کرنے کی جستجو نہ کرے یوں بھی تیرے لیے کیا ضروری ہے کہ خود کو نالہ بلبل کی احسان مندی قبول کرے کہ اس طرح تو تیری ہیَت ظاہر ہونے کا امکان ہے ۔
خالی شرابِ عشق سے لالے کا جام ہو پانی کی بوند گریہَ شبنم کا نام ہو
معانی: گریہ: رونا ۔
مطلب: اے درد عشق! موجودہ صورت حال میں تو ایسی کیفیت ہونی چاہیے کہ لالے کے پھول کے حوالے سے بھی جذبہ محبت کے اظہار کا امکان نہ ہو ۔ اور انسان پانی کی بوندوں کو بھی شبنم کے قطرے تصور کرے ۔
پنہاں درونِ سینہ کہیں راز ہو ترا اشکِ جگر گداز نہ غماز ہو ترا
معانی: درونِ سینہ: دل میں ۔ اشک جگر گداز: ایسے پرسوز آنسو جو جگر کو پگھلا دیں ۔ غماز: چغلی کھانے والا ۔
مطلب: تیرا راز بدستور سینے کے کسی گوشے میں پوشیدہ رہنا ضروری ہے نا ہی تجھ سے منسوب آہ بھی سنائی دے جو سننے والے کے جگر کو تڑپا کر اور گداز کر کے رکھ دیتی ہے ۔
گویا زبانِ شاعرِ رنگیں بیاں نہ ہو آوازِ نَے میں شکوہَ فرقت نہاں نہ ہو
معانی: رنگیں بیاں : دل کش اشعار کہنے والا ۔ نَے: بانسری ۔
مطلب: بلکل اسی طرح سے جیسے کہ شاعر رنگیں نوا اپنے نغموں کا سلسلہ منقطع کر دیتا ہے یا کوئی بانسری بجانے والا اپنے سروں میں جدائی کی کیفیت کا اظہار کرنے سے گریز کرتا ہے ۔
یہ دورِ نکتہ چیں ہے، کہیں چھپ کے بیٹھ رہ جس دل میں تو مکیں ہے، وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
معانی: نکتہ چیں : عیب نکالنے والا، اعتراض کرنے والا ۔ مکیں : ٹھکانا کیے ہوئے ۔
مطلب: اے درد عشق! تجھ پر بھی یہ لازم ہے کہ اس عہد نکتہ چیں سے خود کو کہیں روپوش کرے ۔ تیرے لیے مناسب یہی ہے کہ جو دل تیری آماجگاہ ہے وہیں مستقل طور پر اپنا مسکن بنا لے ۔ مراد یہ ہے کہ جذبہ عشق کی کسک اظہار کے ساتھ ہی اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہے ۔ لہذا اس باطن تک ہی محدود کرنا لازم ہے ۔
غافل ہے تجھ سے حیرتِ علم آفریدہ دیکھ جویا نہیں تری نگہِ نارسیدہ دیکھ
معانی: حیرتِ علم آفریدہ: علم کی پیدا کردہ حیرانی ۔ جویا: تلاش کرنےوالی ۔ نگہِ نارسیدہ: ایسی نگاہ جو اپنے مقصود تک نہ پہنچے، ناتجربہ کار نگاہ ۔
مطلب: حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اے درد عشق! تیرے وجود سے اہل علم و دانش آگاہ نہیں اور تیری کسک کا بھی انہیں ادراک نہیں ۔
رہنے دے جستجو میں خیالِ بلند کو حیرت میں چھوڑ دیدہَ حکمت پسند کو
معانی: خیالِ بلند: مراد فلسفی کی بلند سوچیں ۔ دیدہَ حکمت پسند: فلسفے کو پسند کرنے والی نگاہ ۔
مطلب: لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو ان اہل علم و دانش کو اسی طرح سے حیرت زدہ ہی رہنے دے اور جو لوگ خود کو حکمت و آگہی کا مظہر سمجھتے ہیں انہیں بدستور عدم واقفیت کا شکار ہی رہنے دے ۔
جس کی بہار تو ہو، یہ ایسا چمن نہیں قابل تری نمود کے یہ انجمن نہیں
مطلب: یہ ماحول ایسا نہیں ہے جو تیرے سبب بہار آفریں بن سکے ۔ اس لیے کہ یہ تو ایسی جگہ نہیں ہے جہاں تیری نمود کی گنجائش ہو ۔ مراد یہ ہے کہ اس عالم رنگ و بو کے لوگ عملی طور پر بے حس ہو چکے ہیں اور لطیف جذبوں سے محروم ہیں ۔
یہ انجمن ہے کشتہَ نظارہَ مجاز مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
معانی: کُشتہَ نظارہ مجاز: مراد ظاہری حسن پر مرنے والا ۔ خلوت سرائے راز: مرا د کائنات کی حقیقت کی تنہائی کی جگہ یعنی منزل ۔
مطلب: یہ پورا ماحول باطنی اسرار کی آگہی سے قطعی طور پر ناشنا ہے جب کہ تیر ا ادراک تو وہی کر سکتا ہے جو باطن میں جھانکنے کی صفت کا حامل ہو ۔
ہر دل مئے خیال کی مستی سے چُور ہے کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طُور ہے
معانی: مئے خیال: تصور اور سوچ کی شراب مراد عشق سے خالی ۔ چُور: ڈوبا ہوا ہے ۔ آج کل کے کلیم: موجود دور کے فلسفی جو جذبہ عشق سے خالی ہیں ۔
مطلب: آج کل کے لوگوں کی کیفیت تو بس ایسی ہے کہ وہ اپنے اپنے خیالات میں گم رہنے والے ہیں اس طرح عصر موجود کے باسیوں کے طور طریقے ہی ماضی کی نسبت بڑی حد تک تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں ۔