محراب گل افغان کے افکار
(۹)
عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثلِ ہوس پر شہباز سے ممکن نہیں پروازِ مگس
معانی: عشق: محبت کا ارفع اور پاکیزہ جذبہ ۔ ہوس: محبت کا پست اور ناپاک جذبہ ۔ طینت: سرشت، فطرت ۔ فرومایہ: کمینہ، پست ۔ پرشہباز: باز کا پر ۔ پرواز مگس: مکھی کی اڑان ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے افغانی کی زبان سے محبت کے اعلیٰ ارفع اور پاک جذبہ کو جسے عشق کہتے ہیں ۔ شیطانی خواہشات اور جنسی لذتوں کی دلدادہ محبت کے کمینہ اور پست جذبہ کو ہوس کہتے ہیں شاہین اور مکھی کی مثال دے کر سمجھایا ہے جس طرح باز کے پر اسے بلند پروازی کی وجہ سے آسمان کی وسعتوں میں لے جاتے ہیں اور اسکے برعکس جس طرح مکھی کے پر اسے کم بلندی پر اڑان پر مجبور کرتے ہیں وہ گندگی پر بیٹھ کر خوش ہوتی ہے ۔ اسی طرح کا فرق عشق اور ہوس میں ہے ۔ عشق بلند پرواز شاہین کی طرح ہے اور کم پرواز مکھی کی مانند ہے ۔ عشق کی فطرت ارفع و بلند ہے ۔ ہوس کی فطرت پست اور کمینہ ہے ۔
یوں بھی دستورِ گلستاں کو بدل سکتے ہیں کہ نشیمن ہو عنادل پہ گراں مثل قفس
معانی: دستور: آئین، اصول ۔ گلستاں : باغ ۔ نشیمن: گھونسلہ، آشیانہ ۔ عنادل: عندلیب کی جمع، بلبل ۔ گراں : بھاری ۔ مثل: مانند ۔ قفس: پنجرہ ۔
مطلب: اس شعر میں باغ، بلبل، پنجرہ، آشیانہ وغیرہ کی علامتوں سے آزادی اور درویشی کی بات سمجھائی گئی ہے ۔ پنجرہ تو بے شک بلبل کے لیے قید ہے لیکن اس کا گھونسلہ تو قید نہیں لیکن شاعر کہتا ہے کہ اپنی آزادی کوقائم رکھنے کے لیے اور درویش طبع بننے کے لیے اپنے گھر بار کی فکر بھی نہیں کرنی چاہیے ۔ آزاد فضا میں درویش کی طرح کی بے نیازانہ زندگی گزارنی چاہئے اور قید خانہ سے بھی استغنا کی صورت پیدا کر لینی چاہیے ۔ باغ کا عام اصول اور قانون یہی ہے کہ اس میں بلبل اگر پنجرہ میں نہ ہو تو خود کو آزاد سمجھتی ہے لیکن آزاد منش لوگ اس آئین کو بھی بدل دیتے ہیں اور قید آشیانہ بھی برداشت نہیں کرتے ۔
سفر آمادہ نہیں منتظرِ بانگِ رحیل ہے کہاں قافلہَ موج کو پروائے جرس
معانی: سفر آمادہ: سفر پر جانے کے لیے تیار ۔ منتظر: انتظار کرنے والا ۔ بانگ: آواز ۔ رحیل: کوچ ۔ قافلہ موج: لہر کا قافلہ ۔ جرس: گھنٹی جو قافلہ کے کوچ کے وقت بجائی جاتی ہے ۔
مطلب: جو شخص اپنے دل کا سفر کرنے کا جذبہ رکھتا ہو اور اس پر اس کا دل آمادہ ہو اور اسکے لیے بے قرار ہو وہ قافلہ سالار کی اس کوچ کی آواز کا انتظار نہیں کرتا جو قافلہ کو کوچ کے لیے تیار رہنے کی صدا لگاتا ہے کیا آپ نے پانی کی موج کو دریا کی لہر کو نہیں دیکھا ۔ کیا وہ اس گھنٹی کی آواز کا انتظار کرتی ہے جو قافلہ کے کوچ کے وقت بجائی جاتی ہے نہیں بلکہ وہ تو آواز کے انتظار کے بغیر ہی رواں دواں ہے ۔ اصل چیز وہ جذبہ ہے جو آدمی کو حرکت ، عمل اور آزاد رہنے پر مجبور کرتا ہے وہ اس کے لیے کسی دوسرے کی مدد یا راہنمائی کا محتاج نہیں ہوتا ۔
گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے مُردہ ہے! مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس
مطلب: اس شعر میں مدرسہ سے مراد وہ مدرسہ ہے جو انگریزوں نے اپنی تہذیب و ثقافت پھیلانے، مسلمانوں کو اسلام سے نا آشنا کرنے اور اپنی حکومت چلانے کے لیے نوکر چاکر پیدا کرنے کے لیے کھولے تھے ۔ ان مدرسوں میں جو طالب علم پڑھتے ہیں وہ اس لحاظ سے تو زندہ ہیں کہ انہیں سانس آ رہی ہے لیکن وہ اس لحاظ سے مردہ ہیں کہ ان کے سانس اپنے نہیں ۔ انگریزی تمدن و معاشرت اور تہذیب و ثقافت کی ہوا لیے ہوئے ہیں جس کی بنا پر ان کے دل مردہ، روح بے روح اور جان بے جان ہو چکی ہے ۔ البتہ ان کے تن زیب وزینت والے اور دماغ افکار سے غیر ضرور روشن ہو گئے ہیں ۔ یہ زندگی موت سے بھی بری ہے ۔
پرورش دل کی اگر مدِ نظر ہے تجھ کو مردِ مومن کی نگاہِ غلط انداز ہے بس
معانی: پرورش: پالنا، تربیت کرنا ۔ مدنظر: نگاہ غلط انداز: ایسی نگاہ جو بے ارادہ پڑ جائے ۔
مطلب : جدید مدرسوں میں تن کی پرورش تو ہوتی ہے لیکن دل مر جاتے ہیں ۔ اگر اے جدید مدرسہ کے طالب علم تجھے اپنے دل کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے تو کسی مردِ مومن کو، کسی اللہ کے برگزیدہ چیدہ بندے کو یا درویش کو تلاش کر کے اس کی صحبت اختیار کر ۔ کیونکہ ایسے شخص کی بے ارادہ پڑی ہوئی نظر بھی حیوان کو انسان اور مردہ دل کو زندہ دل بنا دیتی ہے ۔ اور اگر وہ ارادے سے کسی پر نظر ڈالے تو پھر اس کی قسمت بیدار اسے کہاں تک پہنچا دے گی یہ وہی جان سکتے ہیں جن پر یہ نگاہ پڑی ہے اور جو آدمیوں میں روح و دل اورا یمان کے اعتبار سے سربرآوردہ ہو گئے ہیں ۔