محراب گل افغان کے افکار
(۱۱)
جس کے پرتو سے منور رہی تیری شبِ دوش پھر بھی ہو سکتا ہے روشن وہ چراغِ خاموش
معانی: پرتو: سایہ ۔ منور: روشن ۔ شب دوش: گزری ہوئی رات ۔ چراغِ خاموش: بجھا ہوا چراغ ۔ جلوہ: روشنی ۔
مطلب: جس چراغ کی روشنی یا جلوہ سے تیری گزری ہوئی کل کی رات روشن رہی ہے اور جواب بجھ چکا ہے ۔ وہ چراغ تو اپنی آج کی رات کو منور کرنے کے لیے پھر جلا سکتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ اے افغان قوم تیری گزشتہ تاریخ روایات بڑی شاندار ہیں ۔ اگر آج کسی وجہ سے تو ان روایات سے محروم ہو چکا ہے تو فکر کی بات نہیں ۔ عزم اور کوشش کی ضرورت ہے تو ان پرانی روایات سے اپنی زندگی کو مزین کر کے پھر اقوام عالم میں سرفراز ہو سکتا ہے ۔
مردِ بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گلہ بندہَ حُر کے لیے نشترِ تقدیر ہے نوش
معانی: مرد بے حوصلہ: بے ہمت شخص ۔ گلہ: شکایت، شکوہ ۔ بندہ حر: آزاد آدمی ۔ تشتر تقدیر: تقدیر کا نشتر ۔ نوش: خوش گوار اور پسندیدہ پینے کی چیز، نشتر: وہ چاقو جس سے زخم چھیڑا جاتا ہے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے ایک اصولی بات کی ہے اور وہ یہ کہ وہ لوگ جو بے ہمت ہوتے ہیں اور جن میں برداشت کا حوصلہ نہیں ہوتا وہی اپنے مخالف حالات پر زمانہ کی شکایت ، شکوہ کرتے ہیں ۔ اور ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک آزاد مرد شکوہ کرنے کی بجائے ان حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ مخالف زمانہ پھر اس کے موافق ہو جائے وہ تقدیر کے نشتر کو بھی ایک خوش گوار بات سمجھتا ہے اور اس نشتر کے نتیجے میں اس میں سے جو خون بہتا ہے اس کو اچھا مشروب سمجھتا ہے اور اس ے پسندیدہ سمجھ کر اور برداشت کر کے اپنے زخم کو مندمل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس زخم پر یا اس میں سے خون بہتا ہوا دیکھ کر روتا نہیں ۔ حوصلہ نہیں ہارتا ۔
نہیں ہنگامہَ پیکار کے لائق وہ جواں جو ہُوا نالہَ مرغانِ سحر سے مدہوش
معانی: ہنگامہ پیکار: جنگ کا ہنگامہ ۔ نالہ مرغان سحر: صبح کے پرندوں کے نالے ۔ مدہوش: مست ۔
مطلب: وہ جوان جو صبح کے پرندوں کے نالے سن کر ان سے مدہوش ہو جاتا ہے اس میں جنگ کے ہنگامہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی مراد یہ ہے کہ جو شخص تن آسان ہے عیش پسند اور آرام طلب ہے وہ زندگی کی جنگ میں حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ زندگی ایک تگ و دو کا میدان اور حالات جنگ کی سی جگہ ہے، اس میں کامیابی کے لیے حوصلہ ، جرات اور عمل کی ضرورت ہے ۔ بے حوصلہ اور بے عمل لوگ حالات زندگی کی جنگ میں شکست کھا جاتے ہیں ۔
مجھ کو ڈر ہے کہ طفلانہ طبیعت تیری اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش
معانی: طفلانہ طبیعت: بچوں کی طبیعت ۔ عیار: مکار، چالاک ۔ شکر پارہ فروش: شکر کے ٹکڑے بیچنے والے ۔
مطلب: اے افغان جوان میں دیکھ رہا ہوں کہ تیری طبیعت میں بچپنا ہے اور بچپن میں جس طرح کھلونے دے کر بچے کو بہلا دیا جاتا ہے اور پھر اسے خاموش کر دیا جاتا ہے یا اس سے جو کام لینا ہو وہ لے لیا جاتا ہے کہیں تیری اس طبیعت اور مزاج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپ کے مکار اور چالاک لوگ فائدہ نہ اٹھا لیں اور تجھے شکر کے ٹکڑے دے کر اس میں زہر نہ کھلا دیں ۔ اس لیے ان یورپ والوں سے ہوشیار رہ ۔ وہ ایسے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں جو بہ ظاہر خوش نما نظر آتے ہیں لیکن جب ان کا وار چل جاتا ہے تو نتیجہ تباہ کن سامنے آتا ہے اس لیے اہل مغرب کی ان میٹھی گولیوں سے بچنا جو باہر سے میٹھی ہیں اور اندر زہر رکھتی ہیں ۔ نشہ آور ہیں ۔