مرزا غالب
فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے پرِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا
معانی: مرزا غالب: اردو، فارسی کے مشہور شاعر ۔ فکر: سوچ، غور کرنے کی قوت ۔ روشن ہونا: ظاہر ہونا ۔ مرغِ تخیل: فکر اور خیالات کا پرندہ ۔ رسائی: پہنچ ۔ تا کجا: کہاں تک ۔
مطلب: اقبال یہاں غالب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تیرے وجود نے فکر انسانی پر یہ بات واضح کر دی کہ خیالات کی رو کس بلندی تک پرواز کر سکتی ہے ۔ یعنی تیری متخیلہ کی بلندی تک رسائی کے لیے انتہائی فکر کی ضرورت ہے ۔
تھا سراپا روح تو، بزمِ سخن پیکر ترا زیبِ محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا
معانی: بزمِ سخن: شاعری ۔ پیکر: جسم ۔ زیب محفل: محفل کی رونق ۔
مطلب: شاعری کی بزم میں تیری ذات اس کی روح معلوم ہوتی ہے اور تیرا وجود اس کی رونق بھی رہا اور ان معنوں میں اس سے پوشیدہ بھی رہا کہ تیرے ہم عصر لوگ فی الواقع تیری شاعرانہ عظمت تک رسائی حاصل نہیں کر سکے ۔
دید تیری آنکھ کو اس حُسن کی منظور ہے بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
معانی: اس حسن: مراد محبوب حقیقی کا حسن ۔ منظور: پیشِ نظر ۔ سوزِ زندگی: زندگی کی حرارت ۔ ہرشے: کائنات کی ہر چیز ۔ مستور: چھپی ہوئی ۔
مطلب: تیری آنکھ اپنے محبوب حقیقی کے حسن کی طرف مائل ہے جو کائنات کی ہر شےمیں زندگی کی حرارت کی طرح چھپا ہوا ہے ۔
محفلِ ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار
معانی: محفلِ ہستی: دنیا کی بزم ۔ بربط: ایک قسم کا باجا، شاعری ۔
مطلب: جس طرح رواں دواں گاتی گنگناتی ندی پہاڑوں کے سکوت میں ارتعاش پیدا کرتی ہے اسی طرح اس کائنات میں تیرے تخیل نے اہل ذوق کا دامن حکمت و دانش سے بھر دیا ہے ۔
تیرے فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزہ زار
معانی: فردوسِ تخیل: تخیل کی جنت ۔ کشت: کھیتی، فصل ۔ عالم: دنیا ئیں ، مراد نئے نئے مضامین ۔ سبزہ زار: سبزے کی طرح ۔
مطلب: تیرے خیالات نے فطرت کے مظاہر کو بھی بہار آشنا کر دیا ۔ یہی نہیں بلکہ تیری شاعرانہ فکر نے ایسی دنیائیں تخلیق کیں جو انسانی ذہن کو تازگی اور سرشاری سے ہمکنار کر گئیں ۔
زندگی مضمر ہے تیری شوخیِ تحریر میں تابِ گویائی سے جنبش ہے لبِ تصویر میں
معانی: مضمر: چھپی ہوئی ۔ شوخی تحریر: مراد دل میں اثر کرنے والے شگفتہ اشعار ۔ تابِ گویائی: بولنے کی طاقت ۔
مطلب: تیری شعری تخیلات میں حکمت کے ساتھ ایسی شوخیاں بھی موجود ہیں جو ساکت و جامد تصاویر کو بھی لب کھولنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک غالب کی شاعری میں خیال و فکر اور آہنگ کا طلس پوشیدہ ہے ۔
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر
معانی: نطق: زبان ۔ لبِ اعجاز: یعنی معجزہ کی سی کیفیت رکھنے والے اشعار کہنے والی زبان ۔ محوِ حیرت: حیرانی میں گم ۔ رفعتِ پرواز: یعنی مضامین کے لحاظ سے بلندی پر اڑنا ۔
شاہدِ مضموں تصدق ہے ترے انداز پر خندہ زن ہے غنچہَ دلی گلِ شیراز پر
معانی: شاہد: محبوب، حسین ۔ تصدق: قربان ۔ انداز: مراد شعر گوئی کا طریقہ ۔ خندہ زن: ہنسی، مذاق اڑانے والا ۔ غنچہَ دلی: دلی کی کلی مراد غالب ۔ گلِ شیراز: شیراز کا پھول ۔
مطلب: شاعری میں تیرا انداز بیاں اس قدر منفرد اور دلنشیں ہے جس پر مضامین خودنثار ہونے پر آمادہ رہتے ہیں ۔ تیرے کلام میں ایسی تازگی اور مٹھاس ہے کہ اس کے با المقابل شیراز کے حافظ اور سعدی جیسے بلند پایہ شعرا کا رنگ بھی پھیکا پڑ جاتا ہے ۔ مراد یہ کہ غالب دوسرے باکمال شعرا سے بھی عظیم ہے ۔
آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
معانی: آرامیدہ: آرام کر رہا ہے، دفن ہے ۔ گلشنِ ویمر: جرمنی کے شہر ویمر کا باغ، ویمر میں جرمنی کے مشہور شاعر گوءٹے کی قبر ہے ۔
مطلب: لیکن کتنا اندوبگیں انقلاب ہے کہ تو اب اس دلی میں مدفون ہے جو انحطاط و زوال کا نمونہ ہے اور تخلیقی و تہذیبی اعتبار سے اجڑ چکا ہے ۔ غالب! تیرے ہم عصر شعرا میں عالمی سطح پر تجھ سا بلند پایہ شاعر تو جرمنی کا گوءٹے ہے جو وہاں کے مشہور اور زندہ شہر ویمر میں دفن ہے ۔
لطفِ گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں
معانی: لطفِ گویائی : بولتے یعنی شعر کہنے کا مزہ ۔ ہمسری: برابری ۔ فکرِ کامل: سوچ بچار اور غور کرنے کی پوری پوری قوت ۔
مطلب: اے شاعر عظیم! جب تک کوئی تیرے فکر و تخیل کی بلندی سے آشنا نہیں ہوتا وہ تیری ذات سے کس طرح واقف ہو سکتا ہے اور تیرے انداز بیاں کی برابری کا کیسے حق دار ہو سکتا ہے ۔
ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سرزمیں آہ! اے نظارہ آموزِ نگاہِ نکتہ بیں
معانی: نظارہ آموز: دیکھنے یعنی مشاہدہ کا ڈھنگ سکھانے والی ۔ نگاہِ نکتہ بیں : باریکیوں یا بھیدوں کو دیکھنے والی نگاہ ۔
مطلب: نہ جانے تیرے بعد ہندوستان کی سرزمین تخلیقی سطح پر کیوں بنجر ہو گئی اور اب وہاں تجھ سا عظیم شاعر اور دانشور کیوں پیدا نہیں ہو رہا ۔
گیسوئے اردو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے شمع یہ سودائیِ دل سوزیِ پروانہ ہے
معانی: گیسوئے اردو: اردو کی زلفیں ، یعنی اردو زبان ۔ منت پذیر: احسان مند ۔ شانہ: کنگھی ۔ شمع: یعنی اردو زبان ۔ سودائی: مشتاق ۔ دل سوزیَ پروانہ: مراد پتنگے کی محبت ۔
مطلب: حالانکہ اردو زبان ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کے عروج و ارتقا کے لیے تجھ جیسے پلند پایہ شعرا درکار ہیں ۔
اے جہان آباد! اے گہوارہَ علم و ہنر ہیں سراپا نالہَ خاموش تیرے بام و در
معانی: جہان آباد: دہلی کا پرانا نام ۔ گہوارہ: مرکز، تربیت گاہ ۔ نالہَ خاموش
ایسی فریاد جس میں آواز نہ ہو ۔ بام و در: چھت اور دروازے ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال دہلی سے براہ راست مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تو جو ابتدا سے ہی علم وہنر کا گہوار رہی ہے اب تیری وہ عظمت کیا ہوئی ۔ تیرے گلی کوچے کیوں حکمت و دانش سے خالی نظر آتے ہیں ۔
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
معانی: شمس و قمر: سورج اور چاند، مراد بڑی ہستیاں ۔ گہر: یعنی علم و فضل والے ۔
مطلب: حالانکہ تیری خاک میں بے شمار ایسے ماہرین علم و حکمت دفن ہیں جن کی شہرت و عظمت سے خود تیرا وجود روشن اور درخشندہ ہے ۔
دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے
معانی: فخرِ روزگار: زمانے کے لیے فخر کا باعث ۔ موتی: مراد شخصیت ۔ آبدار: چمک دار، عظمت والا ۔
مطلب: لیکن اتنا بتا دے کہ کیا تیری خاک میں غالب سا بھی کوئی بلند پایہ شاعر دفن ہے جو علم و حکمت، تخیل اور شاعرانہ لطافت میں یکتائے روزگار ہے ۔