عقل و دل
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
مطلب: یہ نظم عملی سطح پر عقل اور دل کے مابین ایک مکالمہ ہے جس میں عقل اور دل اپنی اپنی خصوصیات بیان کرتے ہیں ۔ نظم کا آغاز عقل کی زبانی سے ہوتا ہے جو دل سے ایک دن یوں گویا ہوتی ہے کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو یہ جان لے کہ میں ان لوگوں کی رہنما ئی کے فراءض انجام دیتی ہوں جو اپنے صحیح راستے سے بھٹک کر غلط راہ پر چل پڑے ہیں ۔
ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا دیکھ تو کس قدر رَسا ہوں میں
معانی: رَسا: پہنچنے والی ۔
مطلب: بے شک میرا وجود زمین پر قائم ہے اس کے باوجود میری پہنچ آسمان تک ہے کہ میں اپنی قوت استدلال کے سبب زمین پر رہتے ہوئے بھی آسمان کی وسعتوں اور ان کے عوامل سے پوری طرح آگاہ رہتی ہوں ۔
کام دنیا میں رہبری ہے مرا مثلِ خضرِ خجستہ پا ہوں میں
معانی: خضر: وہ ولی جو بھولے ہوئے کو راستہ دکھاتا ہے ۔ خجستہ پا: مبارک قدموں والا یہ فریضہ لگا دیا ہے ۔
مطلب: اس دنیا میں میرا کام تو ان لوگوں کی صحیح رہبری کرنا ہے جو اپنی راہ سے بھٹک چکے ہیں ۔ یوں میری حیثیت خضر کی سی ہے جس کے ذمے قدرت نے یہ فریضہ لگا یا ہے ۔
ہوں مفسر کتابِ ہستی کی مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں
معانی: کتابِ ہستی: مراد زندگی کی کتاب ۔ مظہر: ظاہر ہونے کی جگہ ۔ شانِ کبریا: خدا کی شان، عظمت ۔
مطلب: اگر زندگی کو ایک صحیفہ تصور کر لیا جائے تو یہ جان لے کہ میں اس کی تفسیر کی اہلیت رکھتی ہوں ۔ یہی نہیں بلکہ شان خداوندی کا اظہار بھی میرے ہی دم سے ہوتا ہے ۔
بوند اک خون کی ہے تو لیکن غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں
معانی: لعلِ بے بہا: بہت قیمتی لعل ۔
مطلب: تیری حیثیت تو اے دل بس اتنی ہی ہے کہ تو خون کی ایک بوند کی مانند ہے جب کہ میرا وجود ایک نایاب لعل کی طرح سے ہے جس کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا ۔
دل نے سن کر کہا، یہ سب سچ ہے پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں
مطلب: عقل کی زبان سے یہ الفاظ سن کر دل نے جواب میں کہا، تو نے جو کچھ کہا ہے بے شک درست ہے لیکن تو نے میری حقیقت کو جاننے کی بھی کوشش نہیں کی نہ ہی اس امر کا تجزیہ کر سکی کہ فی الواقع میں کیا شے ہوں ۔
رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
مطلب: مانا کہ زندگی کے اسرار کا تجھ کو ادراک ہے لیکن یہ نہ بھول کہ میں تو ان کو خود اپنی آنکھوں کی بصیرت سے دیکھنے کا اہل ہوں ۔
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے تو خدا جو، خدا نما ہوں میں
معانی: خدا جو: خدا کو تلاش کرنے والی ۔ خدا نما: خدا کا پتہ بتانے والا ۔
مطلب: تیرا واسطہ تو محض ظاہری اشیاَ سے ہے جب کہ میں داخلی سطح پر ہر شے کے باطن سے شناسا رہتا ہوں ۔ اس حقیقت کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ تیرا دائرہ کار علم ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کائنات کے جملہ اسرار کی پہچان کا منبع میں ہوں ۔ خدا کو شناخت کرنے کا عمل بھی تیری بجائے میری وجود سے وابستہ ہے ۔
علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
معانی: مرض: بیماری، مراد حقیقت مطلقہ تک پہنچ نہ ہونا ۔
مطلب: اے عقل! یہ بھی جان لے کہ علم جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اس کا رد عمل اضطراب اور بے چینی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے لیکن یہ تو محض ایک عارضہ ہے ۔ چنانچہ میری ذات ہی اس مرض کے لیے مسیحا کی حیثیت رکھتی ہے ۔
شمع تو محفلِ صداقت کی حُسن کی بزم کا دیا ہوں میں
معانی : محفل صداقت: حقیقت کی بزم ۔ حُسن: مراد محبوب حقیقی کا حسن وجمال ۔
مطلب: تو اگر سچائی کی محفل میں شمع کے مانند ہے تو میں بھی حسن کی بزم میں ایک روشن دیے کی حیثیت رکھتا ہوں ۔ ٍ
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا طائرِ سدرہ آشنا ہوں میں
معانی: رشتہ پا: جس کے پاؤں میں دھاگا بندھا ہوا، ایسا پرندہ جو خاص حد تک اڑ سکے ۔ طائر: پرندہ ۔ سدرہ آشنا: جبرئیل کے ٹھکانے سے واقف ۔
مطلب: اے عقل! اگر تیری رسائی زمان و مکان تک ہے تو یہ نہ بھول کہ میری پرواز ان مراحل تک ہے جہاں زمان و مکان کی حدود ختم ہو جاتی ہیں ۔
کس بلندی پہ ہے مقام مرا عرش ربِ جلیل کا ہوں میں
معانی: ربِ جلیل: بڑی عظمت والا خدا ۔
مطلب: بس اس سے زیادہ اور میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ میرا رتبہ انتہائی بلند ہے ۔ بس اتنا جان لے کہ میرا وجود تو رب جلیل کے عرش کی مانند ہے ۔