Please wait..

محراب گل افغان کے افکار
(۱۲)

 
لادینی و لاطینی! کس پیچ میں الجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا لاَ غالب ِالاّ ھو

معانی :لادینی: بے دینی ۔ لاطینی: لاطین کا، اٹلی کا، لاطینی رسم الخط یا خیالات ۔ ضعیف: کمزور ۔ دارو: علاج ۔ لا غالب الا ھو: اللہ کے سوا کوئی غالب آنے والا نہیں ۔
مطلب: دور جدید میں مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار کی وجہ سے مسلمان اقوام میں بے دینی کا اثر آ گیا ہے ۔ ان میں یورپ کے پرانے رسم الخط کو اپنانے کا خیال پیدا ہو گیا ہے اور اپنے اصلی رسم الخط کو جو عربی ہے چھوڑنے کے اقدامات کئی ملکوں میں کیے جا رہے ہیں پھر اس پر بحثیں ہو رہی ہیں ۔ تنازعات پیدا ہو رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ مسلمان قوم جو اپنی نجی اور اجتماعی زندگی کے ہر گوشہ اور ہر شعبہ میں اللہ کو غالب رکھتی تھی اس رویہ سے ہٹ گئی ہے اور اللہ کے غلبہ کی بجائے یورپ کی تہذیب اور ثقافت کے غلبہ سے مغلوب ہو گئی ہے ۔ جب تک ہم اپنی زندگی کے ہر شعبے میں پہلے کی طرح اللہ اور اسکے بتائے ہوئے اصولوں کو خود پر غالب نہیں کریں گے ہم پستی سے نہیں نکل سکتے ۔ مسلمانوبحثیں چھوڑ کر پھر اللہ کی طرف رجوع کرو اور اس کے غلبہ کو تسلیم کر لو ۔

 
صیادِ معانی کو یورپ سے ہے نومیدی
دلکش ہے فضا، لیکن بے نافہ تمام آہو

معا نی: صیادِ معانی: حقیقتوں کو شکار کرنے والا ۔ نومیدی: نا امیدی ۔ دلکش: دل کو کھینچنے والی ۔ فضا: ماحول ۔ بے نافہ: بغیر نافہ کے، بغیر مشک کے ۔ آہو: ہرن ۔
مطلب: جو شخص حقائق کو جانتا ہے حقیقتوں کا شکار کرنے والا یا ان سے واقف ہے وہ یورپ اور یورپ والوں سے نا امید ہے کیونکہ یورپ میں جو ماحول پیدا ہو گیا ہے اس کی مثال اس فضا یا ماحول کی سی ہے جو دیکھنے میں تو بہت خوش نما اور دل کو لبھانے والا ہو لیکن اس ماحول میں نافہ ہرن نہ ہو یعنی پورپ نے جو ترقی کی ہے اور تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کے جو حسین نقشے پیش کیے ہیں وہ نظارہ کرنے میں تو بڑے خوبصورت ہیں لیکن اندر سے میلے اور نقصان پہنچانے والے ہیں ۔ اس لیے اے افغان نوجوان ان دھوکہ دینے والے نظاروں سے بچ اور اپنی اسلامی ، دینی اور تہذیبی روایات کو اپنا جس کا ظاہر بھی روشن ہے اور باطن بھی منور ہے ۔

 
بے اشکِ سحر گاہی تقویمِ خودی مشکل
یہ لالہَ پیکانی خوشتر ہے کنارِ جو

معانی: بے اشک سحر گاہی: صبح کے آنسووَں کے بغیر، عشق کے بغیر، سوز کے بغیر ۔ تقویم: مضبوطی ۔ خودی: خودآگاہی ۔ لالہ پیکانی: تیر کی خاصیت رکھنے والا ۔ خوشتر: زیادہ خوش، زیادہ اچھا ۔ کنار جو: نہر کے کنارے ۔
مطلب: اس شعر میں اشک سحر گاہی کو نہر کے پانی سے اور خودی کو لالہ پیکاں سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ جس طرح تیر کی سی تیزی کا اثر رکھنے والا شاداب اور رعنا لالے کا پھول نہر کے چلتے ہوئے پانی کے کنارے پر بھلا لگتا ہے ۔ اسی طرح خودی اور خودآگاہی کی پرورش اور خوش نمائی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صبح کے وقت آنسو بہائے کیونکہ بغیر سوز کے اور بغیر عشق کے خودی کی پرورش اور تربیت ممکن نہیں ہے ۔

 
صیاد ہے کافر کا، نخچیر ہے مومن کا
یہ دیرِ کہن یعنی بت خانہَ رنگ و بو

معانی: صیاد: شکاری ۔ نخچیر: شکار ۔ دیر کہن: پرانا مندر ۔ بت خانہ رنگ و بو: رنگ اور بو کا بت خانہ، بہت دل کش بت خانہ ۔
مطلب: شاعر نے اس شعر میں دنیا کو ایک پرانا مندر کہا ہے جس میں رنگ اور خوشبو کے بت رکھے ہوئے ہیں ۔ پرانا مندر اس لیے کہا ہے کہ یہ دنیا نہ جانے کب سے وجود میں آئی ہوئی ہے اس کے باوجود اس کی ہر شے ہر زمانے میں دنیا والوں کو دل کش معلوم ہوتی ہے ۔ اور وہ اس کی دل کشی چیزوں کے آگے اس طرح جھکتے ہیں جیسے کوئی بت پرست بت کے آگے جھکتا ہو ۔ شاعر نے اسی لیے دنیا کو ایک مندر سے تشبیہ دی ہے جہاں بت پوجے جاتے ہیں لیکن شاعر یہ کہتا ہے کہ ان بتوں کو وہ پوجتے ہیں جو کافر ہیں ۔ مومن نہیں پوجتے ۔ یہ پرانا مندر اور اس کے بت کافروں کے تو شکاری ہیں کیونکہ وہ ساری زندگی دنیا میں گم ہو کر گزار دیتے ہیں لیکن مومن کی یہ دنیا شکار ہے کیونکہ مومن دنیا سے کافر کی طرح متاثر نہیں ہوتا وہ دنیا اس حد تک نبھاتا ہے جس حد تک اس پر دین کی چھاپ رہی ہے ۔ اور جس طرح اللہ اور اس کا رسول ﷺ نبھانے کے لیے کہتا ہے ۔

 
اے شیخ امیروں کو مسجد سے نکلوا دے
ہے ان کی نمازوں سے محراب تُرش ابرو

معانی: ترش ابرو: خفا، ناراض ۔ محراب: وہ جگہ جہاں نماز پڑھانے والا امام کھڑاہوتا ہے ۔
مطلب: اس شعر میں شاعر نے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ غریب لوگ ہی زیادہ مسجدوں میں آتے ہیں اور وہ بے چارے ہی اخلاص سے نماز پڑھتے ہیں لیکن امیر بہت کم مساجد میں آتے ہیں اور اگر آتے بھی ہیں تو دکھانے کے لیے یہاں نماز پڑھتے ہیں اور صفوں میں غریبوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہونا بھی پسند نہیں کرتے اس لیے مسجد کے واعظ یا امام سے شاعر کہتا ہے کہ ایسے امیروں کا جن میں وہ عیب ہوں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے مسجدوں سے نکال دینا ہی بہتر ہے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے رویے سے مسجد کی محراب جس کے سامنے یہ امیر لوگ نمازیں پڑھتے ہیں ان سے ناراض نظر آتی ہے ۔