پیامِ عشق
سن اے طلب گارِ دردِ پہلو! میں ناز ہوں ، تو نیاز ہو جا میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا
معانی: دردِ پہلو: مراد دردِ عشق ۔ ناز: حسن ۔ نیاز: مراد عاشق ۔ غزنوی: سلطان محمود غزنوی جس نے سومنات کے بت توڑے تھے، مراد بت شکن ۔
مطلب: اے میرے ہم عصر انسان! اگر تو عشق حقیقی کا طلبگار ہے تو میری طرح محبوب کی شخصیت کو عزیز رکھتے ہوئے تو بھی یہی رویہ اختیار کر ۔ اگر دل کو سومنات کا مندر تسلیم کر لیا جائے تو میری شخصیت محمود غزنوی کے مماثل ہے جس نے اس مندر کو ریز ریزہ کر دیا تھا ۔
نہیں ہے وابستہ زیرِ گردوں کمال شانِ سکندری سے تمام ساماں ہے تیرے سینے میں ، تو بھی آئینہ ساز ہو جا
معانی: زیرِ گردوں : آسمان کے نیچے، دنیا میں ۔ شانِ سکندری: سکندر اعظم کا سا عزت و مرتبہ ۔ آئینہ ساز: یعنی اپنے فن میں ماہر ۔
مطلب: یہ جان لے کہ کائنات میں حصول عروج و کمال کے لیے سکندر اعظم جیسے فرمانروا کی شان و شوکت ضروری نہیں ہوتی ۔ سکندر نے بے شک وہ تاریخی آئینہ ایجاد و نصب کیا جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گیا لیکن تیرے سینے میں بھی ایسے کمالات چھپے ہوئے ہیں تو اگر ان کو ظاہر کر دے تو تجھے بھی لوگ سکندر اعظم سے کم مرتبہ کا اہل نہیں سمجھیں گے ۔
غرض ہے پیکارِ زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرضِ قدیم ہے تو، ادا مثالِ نماز ہو جا
معانی: پیکارِ زندگی: زندگی کی تگ و دو، دوڑ دھوپ ۔ کمال پانا: کامل، پورا ہونا ۔ ہلال: پہلی رات کا چاند ۔ جہاں : دنیا ۔ فرضِ قدیم: پرانا فرض ۔ مثالِ نماز: نماز کی طرح ۔
مطلب: مسلسل جدوجہد زندگی میں عروج و کمال حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے بے شک تیری شخصیت ابھی پہلی رات کے چاند کی سی ہے تاہم مسلسل جدوجہد کے ذریعے یہ امر ناممکن نہیں کہ تو بدر کامل بن جائے یعنی انتہائی عروج حاصل کر لے ۔ تجھے تو باری تعالیٰ نے ہزاروں برس قبل دنیا میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بھیجا تھا ۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے اسی طرح نماز کی ادائیگی کے لئے مخصوص ضابطوں پر عمل ضروری ہوتا ہے ۔
نہ ہو قناعت شعارِ گل چیں اسی سے قائم ہے شان تیری وفورِ گل ہے اگر چمن میں ، تو اور دامن دراز ہو جا
معانی: قناعت شعار: تھوڑی چیز پر خوش ہونے والا ۔ گل چیں : پھول توڑنے والا ۔ قائم: برقرار ۔ وفورِ گل: پھولوں کی کثرت ۔ دامن دراز: لمبی جھولی والا ۔
مطلب: یہ امر بھی ذہن نشیں کر لے کہ کبھی کبھی قناعت کا شعار بھی حالات سے ہم آہنگ نہیں ہوتا اگر خداوند ذوالجلال اپنی نعمتوں میں مزید وسعت پیدا کرتا ہے تو تیری طلب کا دامن بھی دراز ہو جانا چاہیے ۔ بصورت دیگر تیرا رویہ کفران نعمت سے تعبیر کیا جائے گا ۔
گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا جہان میں مانندِ شمعِ سوزاں میانِ محفل گداز ہو جا
معانی: صحرا نوردیوں : صحرا نوردی کی جمع، جنگلوں بیابانوں میں پھرنا ۔ شمعِ سوزاں : جلتی ہوئی موم بتی ۔ میانِ محفل: محفل، بزم کے اندر ۔ گداز ہو جا: پگھل جا ۔
مطلب: وہ دور تو کبھی کا ختم ہو چکا جب قیس کی طرح عشق میں لوگ صحرا نوردی اختیار کر لیتے تھے اور اپنے شہر کے علاوہ گھر اور عزیز و اقارب سے بھی بے نیاز ہو جاتے تھے ۔ اب تو یہ امر لازم ہے کہ شمع کی طرح محفل کو روشنی عطا کر ۔ اس شعر میں اقبال نے عملاً رہبانیت کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تو لوگوں کے درمیان رہ کر ہی ملک و ملت کے لیے جدوجہد کر نا لازمی امر ہے ۔
وجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا
معانی: وجود: زندگی ۔ مجازی: جو حقیقی نہ ہو ۔ ہستیِ قوم: قوم کا وجود ۔ آتشِ زن: آگ لگانے والا ۔ طلسمِ مجاز: مجاز کا جادو ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال ایک اہم نقطہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا میں فرد کی زندگی تو مجازی اور غیر حقیقی ہوتی ہے جو ناقابل اعتبار ہے ۔ کوئی بھی تو یہ نہیں جانتا کہ وہ کب تک زندہ رہے گا ۔ جب کہ فرد کے بالمقابل قوم کا وجود حقیقی ہوتا ہے ۔ افراد مٹ جاتے ہیں لیکن قو میں زندہ رہتی ہیں چنانچہ یہ امر لازم ہے کہ ذاتی نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر قوم کی تعمیر کے لیے جدوجہد کی جائے ۔
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا
معانی: فرقہ ساز: فرقہ پرست ۔ آزری: بت تراشنا، گھڑنا ۔ دامن بچانا: کسی برائی سے بچ کے رہنا ۔ غبارِ راہِ حجاز ہو جا: حجاز کے راستے کی گرد بن جا، مراد حضور اکرم کے عشق میں ڈوب جا ۔
مطلب: نظم کے اس آخری شعر میں اقبال اپنے عہد میں ہندی مسلمانوں کی فرقہ پرستی کو آزری اور بت تراشی کے علاوہ بت پرستی سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہ رویہ افسوسناک ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ اس نوع کی بت پرستی سے دامن بچا کر مدینہ کی راہ اختیار کی جائے اور وہیں زندگی گزار دی جائے ۔