Please wait..

شکوہ

 
کیوں زیاں کار بنوں ، سُود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں ، محوِ غمِ دوش رہوں

معانی: شکوہ: گلہ ۔ زیاں کار: نقصان، گھاٹا اٹھانے والا ۔ سود فراموش: فائدہ بھلانے والا ۔ فردا: آنے والا کل ۔ محو: مصروف ۔ غمِ دوش: گزرے ہوئے کل، ماضی کا غم ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال مکالمہ تو رب ذوالجلال سے کرتے ہیں لیکن ان کا لہجہ معمول سے بھی زیادہ تند و تیز ہے ۔ شکوہ ہی وہ نظم ہے جس کے حوالے سے اقبال پر کفر کے فتوے بھی عائد کیے گئے اور بیسویں صدی کے آغاز میں اس کی اشاعت پر بھی خاصی لے دے ہوئی ۔ یہاں تک کہ انہیں اپنے دفاع میں جواب شکوہ جیسی نظم لکھنا پڑی ۔ شکوہ فکری سطح پر ہی نہیں تکنیکی بنیاد پر بھی ایک بلند پایہ نظم ہے ۔ نظم کا آغاز خاصے تند و تیز لہجے میں کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ زندگی میں نقصان اٹھاؤں اور فوائد حاصل نہ کروں ۔ یہ بھی بے معنی بات ہے کہ عصر موجود کی فکر میں تو گھلتا رہوں اور مستقبل کی طرف دھیان نہ دوں ۔

 
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

معانی: نالے: فریادیں ۔ ہمہ تن گوش: پوری طرح کان لگا کر سننے والا ۔ ہمنوا: مراد محفل کا ساتھی ۔
مطلب: کیا یہ مضحکہ خیز امر نہیں ہے کہ بلبلوں کی نالہ و فریاد تک ہی خود کو محدود رکھوں اور اس کے بجائے کسی دوسری جانب ہی خود کو متوجہ رکھوں ۔

 
جراَت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو

معانی: جرات آموز: دلیری سکھانے والی ۔ تابِ سخن: بات کرنے کی طاقت ۔ خاکم بدہن: میرے منہ میں خاک ۔
مطلب: رب ذوالجلال نے تو مجھے ایسی قوت گویائی عطا کی ہے جو بڑی جرات اور حوصلے کی حامل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خاکم بدہن میں اب اپنے پالنے والے سے ہی شکوہ و شکایت کر رہا ہوں ۔

 
ہے بجا شیوہَ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہَ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

معانی: بجا: صحیح، درست ۔ شیوہَ تسلیم: خدا کی رضا پر راضی ہونے کی عادت ۔
مطلب: یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ ہم پیغمبر اسلام کے پیروکار رضائے الہٰی کے مطابق زندگی گزارنے کے عمل میں خاصی شہرت رکھتے ہیں پھر بھی حالات نے اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ اپنے درد کا قصہ بیان کرنا اب ناگزیر معلوم ہوتا ہے ۔

 
سازِ خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ ، تو معذور ہیں ہم

معانی: سازِ خاموش: باجا جو بظاہر بج نہ رہا ہو ۔ معمور: بھرا ہوا ۔ لب: ہونٹ۔
مطلب: بے شک ہماری ہستی ایک ساز خاموش کی مانند ہے کہ دل ہے کہ فریاد سے معمور ہے چنانچہ اس صورت میں نالہ و فریاد لبوں تک آ جائے تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ تو ایک طرح سے ہماری مجبوری ہے ۔

 
اے خدا! شکوہِ ارباب وفا بھی سن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

معانی: اربابِ وفا: وفا نبھانے والے لوگ ۔ خوگرِ حمد: تعریف کرنے کا عادی ۔
مطلب: چنانچہ اے رب ذوالجلال! ہم جو ہمیشہ تیری حمد و ثنا میں مصروف رہتے ہیں اب انہی وفادار لوگوں سے تھوڑا سا شکوہ بھی سن لے کہ ہم جو ہمیشہ سے تیری حمد و توصیف کے عادی رہے ہیں اب ان سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے ۔

 
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم
پھول تھا زیبِ چمن، پر نہ پریشاں تھی شمیم

معانی: ذاتِ قدیم: پرانی ہستی ۔ زیب چمن: باغ کی سجاوٹ ۔ پریشاں : بکھرنا، پھیلنا ۔ شمیم: خوشبو ۔
مطلب: اے خدا! بے شک تیری ذات قدیم تو ازل سے ہی موجود ہے اس کے باوجود تیری ذات ایک ایسے پھول کی مانند تھی ، ہوا نہ ہونے کے باعث جس کی خوشبو چمن میں پھیلنے کے امکانات نہ تھے ۔ اے مہربان و کریم انصاف کا تقاضا تو اس سوچ میں مضمر ہے کہ اگر ہوا موجود نہ ہو تو پھول کی خوشبو باغ میں کسی طور بھی نہیں پھیل سکتی ۔

 
ہم کو جمیعتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ اُمت ترے محبوب کی دیوانی تھی

مطلب: یہ ملت اسلامیہ ہی تھی جس نے تیرا پیغام عام کیا ۔ ہم اگر تیرا پیغام لے کر دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے تھے تو یہ پریشانی اور سرگردانی ہمارے لیے وجہ تسلی تھی ۔ ورنہ تیرے پیغمبر کی یہ امت دیوانی تو نہ تھی کہ دربدر پھرے ۔

 
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر

مطلب: ملت اسلامیہ سے قبل تو اے خدا! تیری دنیا کی عجیب و غریب کیفیت تھی ۔ کہیں تو پتھروں کو اور کہیں لوگوں نے درختوں کو اپنا معبود بنایا ہوا تھا اور یہ لوگ انہی کی پرستش کرتے تھے ۔

 
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر

معانی: پیکرِ محسوس: نظر آنے والا مادی جسم ۔ ان دیکھے: مراد تیرے وجود کو منوایا ۔
مطلب: حقیقت یہ ہے کہ انسان ان اشیاء کو اپنا خالق سمجھنے کا عادی ہو چکا تھا جس کے وجود کو خود محسوس کر سکے ۔ اس صورت میں تجھے کون مانتا کہ جو ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہتا ہے ۔

 
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

مطلب: یہ حقیقت بھی تیرے علم میں ہے کہ ان دنوں کوئی شخص بھی تیرا نام لینے اور تیری عبادت کرنے کا قائل نہ تھا ۔ یہ صرف اہل اسلام کی قوت ایمان اور قوت بازو ہی تھی جن کے سبب کائنات کے گوشے گوشے میں تیرا نام عام ہو گیا اور ہر طرح تیری عبادت ہونے لگی ۔

 

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی
اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی

معانی: بسنا: رہنا ۔ سلجوق: ترکوں کا ایک قبیلہ ۔ تورانی: توران، ترکی کا باشندہ ۔ ساسانی: قدیم ایران کا ایک حکمران خاندان ۔
مطلب: مسلمانوں سے قبل اس دنیا میں ترکوں کا قبیلہ سلجوق بھی تھا، اور توران کے طول و عرض میں تورانی بھی موجود تھے ۔ چین جیسے وسیع و عریض ملک میں چینی باشندے بھی مقیم تھے اور ایران ساسانیوں کی شوکت و جلال کا مظہر تھا ۔

 
اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے، نصرانی بھی

معانی: معمورہ: آبادی، دنیا ۔ نصرانی: عیسائی ۔
مطلب:پھر یہا ں یونانی بھی رہتے تھے ۔ اسی دنیا میں یہودی اور نصرانی بھی رہتے تھے ۔

 
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی، وہ بنائی کس نے

معانی: کس نے: مسلمانوں نے ۔ بگڑی ہوئی بات بنانا: ناکامی کو کامیابی میں بدلنا ۔
مطلب: اس کے باوجود تیرے نام کے تحفظ کی خاطر یہ تو بتا تلوار کس نے اٹھائی اور تصور توحید سے بغاوت کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ کون نبرد آزما ہوا ۔

 
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں

معانی: معرکہ آرا: مراد جہاد کرنے والے ۔
مطلب: اے معبود حقیقی ہم مسلمان ہی تھے جو ساری دنیا میں تیرے مخالفین کے مقابل نبرد آز ما رہتے تھے ۔ اس مقصد کے لیے کبھی ہم دشمن کے خلاف صحراؤں میں اور کبھی دریاؤں اور سمندروں میں جا کر صف آرا ہوئے ۔

 
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

مطلب: کبھی یورپی ممالک کو فتح کر کے وہاں کے کلیساؤں میں جا کر اذانیں دیں اور نغمہ توحید سنایا اور کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں پہنچ کر آوازہَ حق بلند کیا ۔

 
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

معانی: کلمہ: مراد کلمہ توحید ۔ تلواروں کی چھاؤں میں : میدان جنگ میں ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو بڑے بڑے شان و شوکت والے سلاطین کی عظمت مرعوب نہ کر سکی تھی اس لیے ہم تو تلواروں کی چھاؤں میں کلمہ پڑھنے کی جرات اور حوصلہ رکھتے تھے ۔

 
ہم جو جیتے تھے، تو جنگوں کی مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

مطلب: اے خدائے ذوالجلال! ہم مسلمان تو اپنے حریفوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے جیا کرتے تھے اور تیرے نام کی عظمت کے لیے زندگی قربان کر دیتے تھے ۔

 
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے

معانی: تیغ زنی: تلوار چلانا، جہاد کرنا ۔ سربکف: ہتھیلی پر رکھے ہوئے، لڑنے مرنے پر تیار ۔
مطلب: جہاں تک ہماری تیغ زنی کا تعلق تھا وہ محض اپنی حکومتوں کے تحفظ کی خاطر نہیں تھا ۔

 
قوم اپنی جو زر و مالِ جہاں پر مرتی
بُت فروشی کے عوض بُت شکنی کیوں کرتی

معانی: بت فروشی: مراد محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا تو پجاریوں نے اسے بہت سامال و دولت پیش کیا تا کہ وہ بت نہ توڑے ۔ اس نے جواب دیا میں بت شکن کہلانا چاہتا ہوں بت فروش نہیں ۔ بت شکنی: بت توڑنا ۔
مطلب: نہ ہی ہم دولت کے لیے دنیا بھر میں اپنا سر ہتھیلیوں پر لے کر پھرتے تھے ۔ اگر ہماری قوم مال و دولت پر مرتی تو بت شکنی کیوں کرتی ۔

 
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

معانی: ٹلنا: اپنی جگہ سے ہل جانا ۔
مطلب: ہم مسلمان تو وہ حوصلہ مند لوگ تھے جب میدان جنگ میں پہنچ گئے تو فتح حاصل کیے بغیر واپس نہ پلٹے ۔ انسان تو انسان ہم تو وہاں شیروں کے پاؤں بھی اکھاڑ دیا کرتے تھے ۔

 
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

معانی: سرکش: باغی، نہ ماننے والا ۔ بگڑ جانا: غصے میں آ نا ۔ تیغ: تلوار ۔
مطلب: اگر تیرے خلاف کوئی بغاوت پر آمادہ ہوتا تو ہم اس کے خلاف ڈٹ جاتے اور پھر تلوار تو الگ رہی ہم لوگ تو توپ کے مقابل بھی سینہ سپر ہو جاتے ۔

 
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

معانی: دل پر نقش بٹھانا: مراد دلوں میں پورا پورا اثر جمانا ۔ زیرِ خنجر: خنجر کے نیچے ۔
مطلب: اے مالک حقیقی! یہ بتا کہ ہمارے علاوہ توحید کا علم بلند اور کس نے کیا ۔ ہم نے تو تیرا یہ پیغام زیرِ خنجر بھی سنایا ۔ اس مصرع میں علامہ کا اشارہ نواسہَ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی جانب ہے جنھوں نے میدان کربلا میں حق کی فتح کے لیے اپنا سر کٹوادیا ۔

 
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا، اس کو کیا سر کس نے

معانی: اکھاڑا: جھٹکا دے کر اپنی جگہ سے ہٹا دیا ۔ درِ خیبر: خیبر کا دروازہ ، خیبر یہودیوں کا ایک مضبوط قلعہ جس کا دروازہ بھی بیحد مضبوط تھا ۔ اس کے محاصرے کے وقت حضرت علی علیہ السلام نے پوری قوت سے یہ دروازہ اکھاڑ دیا تھا ۔ شہر قیصر کا: مراد روم ۔
مطلب: اے خدا اتنا بتا دے کہ یہودیوں کی مشہور بستی خیبر میں القدس کا دروازہ کس نے تن تنہا اکھاڑ پھینکا ۔ ایک روایت کے مطابق یہ دروازہ اتنا وسیع و عریض اور مضبوط تھا کہ اسے کم و پیش سو افراد مل کر بند کیا کرتے اور کھولا کرتے تھے ۔ تاریخ اسلام کا یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ شیر خدا حضرت علی بن ابی طالب نے جنگ خیبر کے دوران تنہا یہ دروازہ اکھاڑ پھینکا تھا جس کے بعد لشکر اسلام نے باسانی اس انتہائی مضبوط قلعے کو تسخیر کر لیا ۔ قیصر روم کے عظیم شہر قسطنطنیہ کو کس نے فتح کیا ۔

 
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے

معانی: مخلوق خداوند: مراد بنائے ہوئے آقا یعنی بت ۔ پیکر: جسم، ڈھانچا ۔
مطلب: وہ کون تھے جنھوں نے ایسے نافرمان لوگوں کو کاٹ کر رکھ دیا جو مخلوق ہونے کے باوجود خالق بن بیٹھے تھے ۔ اور یہ بھی بتا دے کہ کفاروں کے لشکروں کو کن لوگوں نے تباہی سے دوچار کیا ۔

 
کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدہَ ایراں کو
کس نے پھر زندہ کیا تذکرہَ یزداں کو

معانی: آتش کدہَ ایراں : اسلام سے پہلے ایران کے لوگ آگ کے پوجا کرتے تھے ۔ آتشکدہ میں ہر وقت آگ جلتی رہتی تھی ۔ (آج کل کے آتش پرست پارسی کہلاتے ہیں ) یزداں :مراد اللہ تعالیٰ ۔
مطلب: جس دور میں ایران میں آگ کی پرستش کی جاتی تھی اور وہاں کے لوگ اسی واسطے سے آتش پرست کہلاتے تھے ان کے آتشکدوں کو ہمیشہ کے لیے بجھانے والے کون لوگ تھے ۔ چنانچہ اس عمل کے بعد ذکر توحید کو ازسر نو کس نے زندہ کیا۔

 
کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی
اور تیرے لیے زحمت کشِ پیکار ہوئی

معانی: زحمت کش پیکار: جنگ، جہاد کی تکلیفیں اٹھانے والی ۔
مطلب : اے خدا! یہ بتا کہ ملت اسلامیہ کے علاوہ اور کون سی قوم تھی جس نے تجھ سے محبت کی اور تیری خاطر ہمیشہ میدان کارزر میں سرگرم عمل رہی ۔

 
کس کی شمشیر جہانگیر، جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی

معانی: شمشیر جہانگیر: دنیا کو فتح کرنے والی تلوار ۔ جہاندار: دنیا پر حکومت کرنے والی ۔
مطلب: وہ کس قوم کی تلوار تھی جس نے ساری دنیا کو تسخیر کیا اور اس پر حکومت کی ۔ کس کے نعرہَ تکبیر سے دنیا بیدار ہوئی اور نیک و بد کی تمیز سیکھی ۔

 
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ھُوَ اللہُ اَحَد کہتے تھے

معانی: صنم: بت ۔ ھُو اللہُ احد: وہ اللہ ایک ہے ۔
مطلب: وہ کون سی قوم تھی جس کے خوف سے بت بھی سہمے ہوئے رہتے تھے اور ان کو سامنے پا کر سجدے میں گر جاتے اور تیری واحدانیت کا اقرار کر لیتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ یہ قوم مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور نہ تھی ۔

 
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رُو ہو کے ز میں بوس ہوئی قومِ حجاز

معانی: عین لڑائی: یعنی جب لڑائی زوروں پر ہو ۔ قبلہ رو: کعبے کی طرف منہ کر کے ۔ ز میں بوس ہونا: سجدہ کرنا ۔ قوم حجاز: مراد مسلمان قوم ۔
مطلب: اے معبود حقیقی! تو اس امر سے یقینا آگاہ ہے کہ میدان جنگ میں زبردست نبردآزمائی کے دوران تیری عبادت یعنی نماز کا وقت آ گیا تو مسلمان عساکر نے دشمن کی تلواروں کی پروا کیے بغیر خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے اپنی صفیں سیدھی کر لیں اور سجدہ ریز ہو گئے ۔

 
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

معانی: محمود و ایاز: مراد آقا اور غلام ۔ بندہ: غلام ۔ بندہ نواز: مرا د آقا ۔
مطلب: اس دوران ان عساکر میں بندہ و آقا کی تمیز مٹ گئی او ر دوران نماز آقا و غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے

 
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

معانی: صاحب: مالک، آقا ۔ غنی: مالدار ۔ سرکار: دربار ۔
مطلب : امیر و غریب سب کا فرق ختم ہو گیا اور سب برابر ہو گئے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تیری سرکار میں پہنچ کر یہ سب لوگ ایک ہو گئے ۔

 
محفلِ کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفتِ جام پھرے

معانی: محفل کون و مکاں : مراد دنیا ۔ سحر: صبح ۔ مئے توحید: خدا کی وحدت کی شراب، مراد توحید ۔ صفتِ جام: شراب کے پیالے کی طرح ۔
مطلب: تجھے معلوم ہے کہ ایک عرصے تک مسلمان تیرا پیغام لے کر ہمہ وقت ساری دنیا میں پھرتے رہے اور ہر فرد کو دعوت توحید دیتے رہے ۔

 
کوہ میں ، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو، کبھی ناکام پھرے

معانی: کوہ: پہاڑ ۔
مطلب: تیرا پیغام لے کر تو وہ پہاڑوں اور صحراؤں میں پھرتے رہے اور اس امر کا تو تجھے علم ہی ہے کہ اس عمل میں کبھی ناکام ہوئے نہ وہاں سے ناکام لوٹ کر آئے ۔

 
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

معانی: بحرِ ظلمات: اندھیروں کا سمندر، اشارہ ہے فتح افریقہ کی طرف جو عقبہ بن نافع نے کی ۔
مطلب: اے آقا! تجھے علم ہے کہ صحرا تو الگ رہے ہم نے تو دریا بھی نہیں چھوڑے اور بحر اوقیانوس تک میں اپنے گھوڑے دوڑا دیے ۔

 
صفحہَ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے

معانی: صفحہَ دہر: مراد زمانہ ۔ باطل: ظلم ۔ نوع انساں : مراد تمام انسان ۔
مطلب: ہم مسلمانوں نے اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے باطل کو مٹا کر سچائی کا بول بالا کر دیا ۔ اور انسان کو دوسرے انسان کی غلامی سے نجات دلائی ۔

 
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

معانی: جبینوں سے بسانا: سجدے کرنا ۔
مطلب: تیرے کعبے سے بتوں کو نکال کر اپنی پیشانیوں سے آباد کیا ۔ تیرا قرآن اپنے سینوں میں محفوظ کر کے رکھا ۔

 
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دل دار نہیں

معانی: وفادار: دوستی کا حق ادا کرنے والا ۔ دلدار: ہمدردی کرنے والا ۔
مطلب: اس کے باوجود تجھے یہ گلا ہے کہ ہم تیرے وفادار بندے نہیں ہیں ۔ مگر یہ جان لے کہ ہم وفادار نہیں تو تو نے ہماری کونسی دل دہی کی ے ۔ یعنی ہم مسلمانوں نے تو تیرے لیے ہر ممکن قربانی دی جب کہ تیرا سلوک نمایاں ہے ۔

 
امتیں اور بھی ہیں ، ان میں گنہ گار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں ، مستِ مئے پندار بھی ہیں

معانی: عجز: عاجزہ ۔ مست مئے پندار: گھمنڈ، غرور کی شراب کے نشے میں چور ۔
مطلب: اے خدا! بے شک اس دنیا میں ملت اسلامیہ کے علاوہ اور بھی کئی قو میں آباد ہیں ۔ ان میں نیک لوگ بھی موجود ہیں جو انتہائی عجز و انکساری کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور ایسے افراد بھی موجود ہیں جو انتہائی مغرور و متکبر واقع ہوئے ہیں ۔

 
ان میں کاہل بھی ہیں ، غافل بھی ہیں ، ہشیار بھی ہیں
سیکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

مطلب: ان میں کاہل بھی ہیں ہوشیار بھی اور غفلت شعار بھی موجود ہیں ۔ اور صدہا ایسے لوگ ہیں جو تیرا نام لینا پسند نہیں کرتے اور تجھ سے کد رکھتے ہیں ۔

 
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

معانی: اغیار: جمع غیر، مراد دوسری قو میں ۔ کاشانوں : جمع کاشانہ، ٹھکانے ۔ برق گرنا: مراد مصیبتیں پڑنا ۔
مطلب: لیکن صورت یہ ہے کہ ہمارے دشمنوں پر تو تیری رحمت کا نزول ہوتا ہے لیکن ہم مسلمانوں پر تو عذاب ہی نازل ہوتا رہتا ہے ۔

 
بُت صنم خانوں میں کہتے ہیں ، مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

معانی: صنم خانہ: بتوں کا گھر ۔ مسلمان گئے: مرد مسلمان مٹ گئے ۔ نگہبان: حفاظت کرنے والا، والے ۔
مطلب: چنانچہ اب تو کیفیت یہ ہو گئی ہے کہ ہمارے دشمن علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کا تو خاتمہ ہو گیا ان کو بڑی مسرت ہے کہ جو لوگ کعبہ کے نگہبان تھے وہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے ۔

 
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حُدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے

معانی: منزل دہر: مراد زمانہ ۔ حُدی خوان: اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے خاص قسم کے اشعار پڑھنے والے ۔
مطلب: وہ لوگ جو قافلے میں اونٹوں کے ساتھ نغمے گاتے سفر کرتے تھے چلے گئے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنے ہمراہ قرآن کو بھی بغلوں میں دبائے روانہ ہو گئے ۔ مراد یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کی زوال پذیری پر دوسرے حریف بغلیں بجا رہے ہیں کہ یہ قوم تو قرآن کو بھی بغلوں میں دبا کر لے گئی ۔

 
خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

معانی: خندہ زن: ہنسی اڑانے والا ۔ کفر: کافر طاقتیں ۔
مطلب: تو جانتا ہے کہ کفار ہماری تضحیک پر آمادہ ہیں لیکن تجھے شاید اپنی توحید کا کچھ بھی پاس نہیں ہے ۔

 
یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور

معانی: پاس: لحاظ ۔ معمور: بھرے ہوئے ۔
مطلب: یہ کوئی شکایت نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ تو نے ان لوگوں کو مال و دولت سے نوازا ہے اور ان کے خزانے بھر دیئے ہیں جنھیں کسی محفل میں بات کرنے کا شعور بھی نہیں ہے ۔

 
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدہَ حور

معانی: قہر: غضب، دکھ ۔ حور و قصور: خوبصورت عورتیں اور شاندار عمارتیں ۔ وعدہَ حور: مراد آخرت، بہشت میں حوریں دینے کا وعدہ ۔
مطلب: افسوس محض اس بات کا ہے کہ کافروں کو تو اس دنیا میں ہی تو نے محلات اور لونڈیاں عطا کی ہیں جب کہ ہم مسلمانوں کو محض وعدہَ حور پر ہی ٹرخا دیا ہے ۔ اور وہ حوریں بھی بہشت میں داخل ہونے پر مشروط ہیں ۔

 
اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

معانی: الطاف: جمع لطف، مہربانیاں ۔ مدارات: خاطر تواضع ۔
مطلب: آخر ہم سے کیا خطا ہو گئی جو پہلے کی طرح ہم تیرے لطف و کرم سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں ۔

 
کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب

معانی: نایاب: نہ ملنے والی، غائب ۔ حد حساب نہ ہونا: بہت زیادہ ہونا ۔
مطلب: آخر مسلمانوں نے کون سا جرم کیا ہے کہ وہ دنیاوی دولت سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں ۔ جب کہ تیرے اختیار میں تو اتنا کچھ ہے جس کی کوئی حد نہ حساب ہو سکتا ہے ۔

 
تو جو چاہے تو اُٹھے سینہَ صحرا سے حباب
رہروِ دشت ہو سیلی زدہَ موجِ سراب

معانی: سینہَ صحرا سے: مراد ریگستان میں سے ۔ حباب: پانی کا بلبلہ ۔ رہروِ دشت: جنگل میں چلنے والا ۔ سیلی زدہ: تھپیڑے کھانے والا ۔ سراب: وہ چمکتی ریت جو دور سے پانی دکھائی دیتی ہے ۔
مطلب: تو اتنی قدرت رکھتا ہے کہ چاہے تو دشت صحرا میں بھی سمندر کی مانند بلبلے رقصاں ہوں اور صحرا میں سفر کرنے والے مسافر کے سامنے تو چاہے تو سراب کے بجائے اتنا سیلاب آ جائے کہ مسافر کو ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو جائے ۔

 
طعنِ اغیار ہے رُسوائی ہے، ناداری ہے
کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے

معانی: طعن: طنز ۔ خواری: بے عزتی ۔
مطلب: ہم تو اغیار کے طعنوں سے بھی ہم کنار ہیں اور رسوائی و ناداری سے بھی دوچار ہیں ۔ اتنا تو بتا دے کہ تجھ پر مر مٹنے کا صلہ کیا خوار و برباد ہونے میں ہی ملتا ہے ۔

 
بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا

معانی:خیالی: جس کا کوئی وجود نہ ہو ۔
مطلب: ایک زمانہ تھا جب دنیا پر مسلمانوں کا تسلط تھا جب کہ یوں لگتا ہے کہ اب وہ غیر مسلموں کو پسند کرنے لگی ہے ہمارے لیے تو بس ایک خیالی دنیا ہی رہ گئی ہے ۔ ہم تو اس منظر سے ہٹ گئے ۔

 
ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

معانی: سنبھالی دنیا: مراد دنیا پر حکمران ہوئے ۔
مطلب: اب دوسروں نے دنیا پر اپنا قبضہ جما لیا ہے ۔ اس صورت میں یہ گلہ نہ کرنا کہ دنیا سے توحید مٹ چکی ہے ۔

 
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے

مطلب: ہم تو صرف اس لیے جی رہے ہیں کہ تیرا نام باقی رہے پر اتنا بتا دے کہ ساقی کے بغیر جام کی حقیقت کیا ہے ۔


تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں ، صبح کے نالے بھی گئے

معانی: محفل جانا: مراد مسلمانوں کا غلام ہو جانا ۔ چاہنے والے: یعنی مسلمان ۔ شب کی آہیں : رات کے وقت اللہ کے حضور گڑگڑانا ۔ صبح کے نالے: صبح کے وقت عبادات وغیرہ ۔
مطلب: اے مالک دوسرا! اب تو صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ تو نے جو محفل آراستہ کی تھی اس کا خاتمہ بھی ہو گیا اور تیرے چاہنے والے بھی رخصت ہو گئے ۔ تیرے عشاق اس محفل میں شب بھر آہیں بھرتے تھے اور صبح کے وقت نالہ و فریاد کرتے تھے لیکن ان کے خاتمے پر اب یہ سب کچھ بھی ختم ہو کر رہ گیا ۔

 
دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلہ لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

صلہ: بدلہ، انعام ۔
مطلب: ان چاہنے والوں نے تجھے اپنا محبوب بنایا اور اس کا صلہ بھی حاصل کر لیا ان کا دور اس قدر مختصر رہا جیسے کوئی محفل میں آ کے بیٹھا ہی ہو تو اس کو وہاں سے نکال دیا جائے ۔

 
آئے عشاق گئے وعدہَ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

معانی: عشاق: جمع عاشق، چاہنے والا ۔ وعدہَ فردا: مراد قیامت کے دن کا قول و قرار ۔ رخِ زیبا: خوبصورت چہرہ ۔
مطلب: جو چاہنے والے تیرے جلووں کی تمنا لے کر آئے تھے انہیں تو تو نے وعدہَ فردا پر ٹال دیا ۔ اب ان کی واپس مشکل ہے خواہ انہیں کسی طور پر بھی تلاش کیا جائے ۔

 
درد لیلیٰ بھی وہی، قیس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل میں رمِ آہو بھی وہی

معانی: دردِ لیلیٰ: مراد محبوب حقیقی، خدا کی یاد ۔ قیس کا پہلو: اللہ کے عاشقوں کا دل ۔ نجد: لیلیٰ کا وطن ۔ دشت و جبل: صحرا اور پہاڑ ۔ رمِ آہو: ہرن کا دوڑنا، اللہ کے عاشقوں کا صحراؤں میں پھرنا ۔
مطلب: لیلیٰ کا درد بھی وہی ہے اور مجنوں کا پہلو بھی وہی ہے صحرائے نجد میں آج بھی ماضی کی طرح ہرن چوکڑیاں بھرتے پھرتے ہیں ۔

 
عشق کا دل بھی وہی، حُسن کا جادو بھی وہی
اُمتِ احمدِ مرسل بھی وہی، تو بھی وہی

معانی: عشق : مراد عاشق یعنی مومن ۔ حسن کا جادو: مراد اسلام کی دل کشی ۔ احمد مرسل: حضور نبی کریم جنھیں پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ۔
مطلب: چاہنے والے کا دل بھی پہلے جیسا ہے اور حسن کا جادو بھی وہی ہے ۔ جب کہ پیغمبر آخر الزماں کی امت بھی وہی ہے اور اے خدا تو بھی وہی ہے کہ جو تھا ۔

 
پھر یہ آزردگی غیرِ سبب کیا معنی
اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی

معانی: آزردگی غیر سبب: بلاوجہ کی ناراضی ۔ کیا معنی: کیا مطلب، یعنی کیوں ۔ شیدا: عاشق ۔ چشم غضب: غصے کی آنکھ ۔
مطلب: اس کے باوجود مسلمانوں سے یہ ناراضگی کیسی ہے اور اپنے چاہنے والوں سے برا سلوک کیوں ہو رہا ہے ۔

 
تجھ کو چھوڑا کہ رسولِ عربی کو چھوڑا
بُت گری پیشہ کیا، بُت شکنی کو چھوڑا

معانی: تجھ کو چھوڑا: یعنی نہیں چھوڑا، سوالیہ ہے ۔ بت گری: بت بنانا ۔ پیشہ کیا: اپنا پیشہ بنایا، یعنی نہیں بنایا ۔
مطلب: بس اتنا بتادے کہ تیری عبادت کو چھوڑا یا حضور کی محبت سے روگردانی کی ہے ۔ کیا ہم نے اسلاف کی بت شکنی کی روایت کو ترک کر کے بت تراشی شروع کر دی ہے

 
عشق کو، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا
رسمِ سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا

معانی: آشفتہ سری: دیوانگی ۔ سلمان: حضور کے بہت پیارے صحابی جو سلمان فارسی کے نام سے مشہور ہیں ، ایرانی تھے ۔ اویس قرنی: حضور اکرم کے سچے عاشق، والدہ کے بڑھاپے کے سبب حضور اکرم نے انہیں کہلا بھیجا تھا کہ اپنی والدہ کی خدمت کرو، میری ملاقات جتنا ثواب ملے گا، چنانچہ وہ حضور کی زیار ت سے محروم رہے ۔
مطلب: کیا ہم نے عشق اور عشق کی دیوانگی سے کناہ کشی کر لی ۔ کیا ہم نے حضرت سلمان فارسی اور اویس قرنی کی روایات کو ترک کر دیا ۔

 
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثلِ بلالِ حبشی رکھتے ہیں

معانی: آگ: مراد شدید جوش و جذبہ ۔ بلال حبشی: حضور کے مشہور صحابی و موذن ۔
مطلب: اگر ایسا نہیں تو ہم سے برگشتگی کی کچھ تو وجہ ہونی چاہیے ۔ جب کہ ہمارے سینوں میں آج بھی تکبیر کی آگ محفوظ ہے اور ہماری زندگی عملی سطح پر حضرت بلال حبشی کی مانند ہے ۔

 
عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی

معانی: خیر: مان لیا ۔ جاد ہ پیمائی تسلیم و رضا: اللہ کی رضا پر راضی ہونے کے راستے پر چلنے کی حالت ۔
مطلب: ہر چند کہ ہم تیری چاہت میں پہلا والا انداز نہیں رکھتے نا ہی ہم میں تیری خاطر تسلیم و رضا کی وہ خو ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی ۔

 
مضطرب دل صفتِ قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندیِ آئینِ وفا بھی نہ سہی

معانی: قبلہ نما: ایک آلہ جس پر لگی ہوئی بڑی سوئی قبلے کے رخ کا پتہ دیتی ہے ۔ پابندی آئین وفا: وفا کے طور طریقے کے پابند ۔
مطلب: یہ بھی درست کہ ہمارے دل قبلہ نما کی طرح مضطرب ہیں اور یہ کہ ہم پہلے جیسے وفادار بھی نہیں ۔ نا ہی ہم میں وفا کے آئین کی پابندی کا جذبہ پہلے کی طرح موجود ہے ۔

 
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے

معانی: شناسائی: دوستی، مراد مہربانی ۔ ہرجائی: ہر جگہ پہنچنے والا ۔
مطلب: اس کے باوجود خود تیرا طرز عمل یہ ہے کہ کبھی ہم سے کبھی دوسروں پر عنایت و مہربانی کرتا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ بات ہر چند کہ کی نہیں ۔ پھر بھی کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ تو بھی تو ہرجائی ہو گیا ہے ۔

 
سرِ فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

معانی: سر فاراں : کوہ فاران پر، فاران مکہ معظمہ کہ وہ پہاڑی جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا ۔ دل لینا: اپنا دیوانہ بنا لینا ۔
مطلب: تو نے فاران کی چوٹی پر دین محمدی کی تکمیل کی ۔ تو اتنا قادر ہے کہ ایک اشارے پر ہزار ہا لوگ تیرے گرویدہ ہو گئے ۔ انسانی دلوں کو تو نے اپنے عشق سے مسخر کر لیا ۔

 
آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دی گرمیِ رُخسار سے محفل تو نے

معانی: آتش اندوز: آگ جمع کرنے والا ۔ حاصل: یہاں مراد نتیجہ ۔ پھونک دی: جلا دی ۔
مطلب: انسانی دلوں کو تو نے اپنے عشق سے مسخر کر لیا ۔ اپنے جلووں سے ساری محفل میں حرارت پیدا کر دی ۔

 
آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں 
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں تجھے یاد نہیں 

معانی: شررآباد: مراد حرارت عشق سے پُر ۔ سوختہ ساماں : جس کا سب کچھ جل گیا ہو ۔
مطلب: لیکن کیا وجہ ہے کہ آج ہمارے سینوں میں عشق حقیقی کی چنگاری موجود نہیں جب کہ شاید تجھے یاد ہو کہ ہم نے تو تیری خاطر اپنا سب کچھ داوَ پر لگا دیا تھا ۔

 
وادیِ نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانہَ نظارہَ محمل نہ رہا

معانی: وادیِ نجد: حجاز کا وہ علاقہ جو لیلیٰ کا وطن تھا ۔ سلاسل: جمع سلسلہ، زنجیریں ۔ قیس: مجنوں کا اصل نام ۔ نظارہ محمل: کجاوے کو دیکھنا جس میں لیلیٰ ہوتی تھی ۔
مطلب: اب تو صورت حال یہ ہے کہ نجد کے صحرا میں زنجیروں کا وہ شور نہیں رہا نا ہی مجنوں لیلیٰ کے نظارے کا دیوانہ نظر آتا ہے ۔ یعنی مسلمانوں میں نہ عشق کا حقیقی جذبہ باقی رہا نہ ہی جدوجہد کا حوصلہ ۔

 
حوصلے وہ نہ رہے، ہم نہ رہے، دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونقِ محفل نہ رہا

معانی: یہ اجڑاہے: بہت ویران، برباد ہوا ہے ۔ رونقِ محفل: جس سے بزم میں چہل پہل اور خوشی ہو ۔
مطلب: نا ہی وہ جرات کردار رہی اور نہ وہ دل رہا جو عشق حقیقی کی حرارت سے مزین ہو ۔ شاید ہمارا گھر اتنا برباد ہو چکا ہے کہ تو اب وہاں رونق افروز ہونا پسند نہیں کرتا ۔

 
اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوئے محفلِ ما باز آئی

معانی: وہ دن کس قدر مبارک ہو گا کہ تو ہماری محفل میں پورے جلووں کے ساتھ رونق افروز ہو گا اور ہم تجھے حجاب سے باہر دیکھ سکیں گے ۔

 
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لبِ جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمہَ کو کو بیٹھے

معانی: بادہ کش: شراب پینے والے، مراد عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنے والے ۔ لب جو: ندی کے کنارے ۔ جام بکف: ہاتھوں میں شراب کا پیالہ لیے ۔ نغمہ کوکو: مراد کوئل، فاختہ کی چہچہاہٹ ۔
مطلب: جو لوگ اے خدا! تیری تعلیمات کی نفی کرتے ہیں اور تیرے دین کو تباہ و برباد کرنے پر تلے بیٹھے ہوئے ہیں ان کو تو نے عیش و مسرت کے تمام سامان فراہم کیے ہوئے ہیں ۔ وہ تو رقص و نغمہ کی محفلیں سجائے ہوئے ہیں ۔

 
دُور ہنگامہَ گلزار سے یک سُو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظرِ ہُو بیٹھے

معانی: ہنگامہ گلزار: باغ کی رونق ۔ یکسو: ایک طرف ۔ منتظر ھو: مراد خدا کی تائید کا انتظار کرنے والا، والے ۔
مطلب : یہی نہیں وہ اس قدر بدمست اور مدہوش ہیں کہ باقی دنیا کن ہنگاموں سے دوچار ہے وہ اس حقیقت سے قطعی بے نیاز ہو کر محو ناوَ و نوش ہیں جب کہ تیرے چاہنے والے مسلمان تو خود کو تیری نعمتوں سے محروم سمجھنے لگے ہیں اور تیری عنایات کے اشاروں کے منتظر ہیں ۔

 
اپنے پروانوں کو ذوقِ خرد افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے

معانی: ذوق: شوق، جذبہ ۔ خود افروزی: خود کو رشن کرنا ۔ برقِ دیرینہ: پرانی بجلی، مراد پہلے والا جوش و جذبہ ۔ جگر سوزی: مراد دل میں عشق کی گرمی پیدا کرنا ۔
مطلب: سو اے خدا! اپنے چاہنے والوں میں پھر سے عمل کا ایک نیا جذبہ پیدا کر دے تا کہ وہ پھر فعال ہو کر اس دنیا میں سرخرو ہو سکیں ۔

 
قومِ آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پَر کو مذاقِ پرواز

معانی: قومِ آوار: ملت اسلامیہ جس کے پیش نظر اعلیٰ مقصد نہیں ۔ عناں تاب: باگ موڑنے والی ۔ سوئے حجاز: مراد اسلام کی طرف ۔ بلبلِ بے پر: مراد مسلمان جو وسائل سے محروم ہیں ۔
مطلب: ملت اسلامیہ ہر چند کہ آج منتشر اور بھٹکی ہوئی ہے تاہم اب اس نے ایک بار پھر اپنا رخ حجاز کی جانب کر لیا ہے تا کہ تیرے حبیب سے رہنمائی حاصل کر اور پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے ۔ بے شک وہ ایسے پرندے کی مانند ہے جو اپنے بال و پر سے محروم ہو چکا ہے ۔

 
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہَ مضراب ہے ساز

معانی: باغ کا غنچہ: مراد ملت کا ہر فرد ۔ چھیڑنا: ساز بجانا ۔ تشنہَ مضراب: جسے مضراب کی ضرورت ہے ۔
مطلب: اس وقت عالم یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کا ایک ایک فرد بے چین و مضطرب ہے اور تیری رضا کا خواہاں ہے ۔ اب صرف اس امر کی دیر ہے کہ تو ان کی جانب اپنی توجہ کا رخ پھیر دے ۔

 
نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے

مطلب: اس لیے کہ ہر شخص اب اس کے لیے بے چین ہے ۔ تیری توجہ کے ساتھ ہی ہر معاملہ درست ہو جائے گا ۔

 
مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے
مورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے

معانی: امت مرحوم: وہ قوم جس پر اللہ کی رحمت نازل ہوئی ہو، دوسرا مطلب مردہ قوم ۔ مور بے مایہ: حقیر سی چیونٹی ۔ ہمدوش: برابر ۔ سلیمان: حضرت سلیمان ۔
مطلب: اے رب کریم! تو نے اپنی جس امت کو ہمیشہ لطف و عنایات سے نوازا ہے تو دیکھتا ہے کہ اب وہ کتنی مشکلات میں مبتلا ہے ۔ لہذا اس کی مشکلیں آسان کر دے اور وہ قوم جو اس وقت انتشار و بے بضاعتی سے ہم آہنگ ہے اسے ایک بار پھر وہی شان و شوکت عطا کر جس کی وہ ہمیشہ سے مستحق رہی ہے ۔

 
جنسِ نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

معانی: جنس نایاب: نہ ملنے والا ۔ ارزاں : سستا سودا ۔ دیر نشین: مندر میں بیٹھنے والے ۔
مطلب: خدایا! ملت مسلم کے ہر فرد کے دل سے محبت کا جذبہ جس طرح مفقود ہوا ہے انہیں پھر سے اس جذبے سے نواز دے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم جو ہندوستان میں بسنے والے محض نام کے مسلمان ہیں اور عملاً غیر مسلموں کی سی خصوصیات کے حامل بن کر رہ گئے ہیں تو ہمیں اپنے دین کی تعلیمات کو اپنانے کی تلقین عطا فرما ۔

 
جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینہ ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدہَ سینہَ ما

مطلب: اب توہمارے دل سے آرزووَں اور تمناؤں کا لہو بہہ نکلا ہے اور نشتروں بھرے سینے میں نالے بیتاب ہو رہے ہیں ۔

 
بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن، رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن

معانی: بوئے گل: مراد قوم کے بے وفا رہنما جو دوسری قوموں سے ملے ہوئے ہیں ۔ غمازِ چمن: چغلی کھانے والا ۔
مطلب: حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہماری منتشر حالت کے داخلی راز خود اپنوں کے ہاتھوں غیروں تک پہنچ گئے ہیں ۔ اس سے زیادہ قیامت کیا ہو گی کہ ہم خود ہی اپنی جڑیں کھودنے پر تلے ہوئے ہیں ۔

 
عہدِ گل ختم ہوا، ٹوٹ گیا سازِ چمن
اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن

معانی: عہد گل:موسم بہار ۔ ٹوٹ گیا سازِ چمن: یعنی قومِ مسلم میں اتحاد نہ رہا ۔ زمزمہ پرداز چمن: یعنی وہ مسلمان جو اسلام کی ترقی و برتری کے لیے کوشاں رہتے تھے ۔
مطلب: کیفیت یہ ہے کہ ملت مسلمہ میں تعمیر و ترقی کے ساتھ مسرتوں کا سماں بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے جو لوگ حقیقی طور پر رہنمائی کیا کرتے تھے وہ بھی قوم سے بدظن ہو کر دل چھوڑ بیٹھے ۔

 
ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

معانی: ایک بلبل: مراد خود علامہ اقبال ۔ محو ترنم: چہچہانا یعنی اسلام سے متعلق شعر کہنے میں مصروف ۔ نغموں کا تلاطم: جذبوں کا طوفان ۔
مطلب: اب تو صرف میں ہی تنہا رہ گیا ہوں جو ہر نوع کی ملی بے حسی کے دوران بھی خاموشی اختیار نہیں کر سکتا ۔ اس لیے کہ میرے سینے میں تو نالہ و فریاد کا طوفان بھرا ہے ۔

 
قُمریاں شاخِ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں

معانی: قمریاں : جمع قمری، فاختہ کی قسم کا ایک پرندہ، مراد پہلے مسلمان جنھوں نے اسلام کے لیے کام کیا ۔ شاخِ صنوبر: مراد اسلام کا باغ یعنی اسلام ۔ گریزاں : دوڑنے، بھاگنے والی ۔ جھڑ جھڑ کے: ٹوٹ ٹوٹ کر ۔ پریشاں ہونا: بکھرنا ۔
مطلب: یہ ضرور ہے کہ جو لوگ ملت کی بہتری کے خواہاں تھے وہ مایوسی کا شکار ہو کر پیچھے جا بیٹھے ۔

 
وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہنِ برگ سے عریاں بھی ہوئیں

معانی: پیرہنِ برگ: پتے کا لباس ۔
مطلب: ملت انتشار کا شکار ہو گئی ہماری قدیم روایات بھی ختم ہو ئیں ۔

 
قیدِ موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی

مطلب: یوں سمجھیے کہ اب محض نام کے مسلمان ہی رہ گئے ہیں لیکن میں (اقبال) اس ساری تباہی سے مایوس نہیں ۔ خدا کرے کوئی میری بات بھی سننے کا چارہ کرے ۔

 
لُطف مرنے میں ہے باقی، نہ مزا جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں

معانی: لطف: مزہ ۔ خونِ جگر پینا: مراد قوم کی حالت پر کڑھنا ۔
مطلب: اب تو نہ مرنے میں مزا رہا نہ جینے میں کوئی لطف باقی رہا ۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہ اپنے ہی جگر کا خون پیتا رہتا ہوں ۔

 
کتنے بیتاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں

معانی: بیتاب: یعنی دل کی بات باہر آنے کے لیے بے چین ہے ۔
مطلب: اس صورت حال کے باوجود میرے سینے میں بے شمار ولولے تڑپ رہے ہیں اور یہی سینہ ہزارہا جلووں کا مسکن بنا ہوا ہے ۔

 
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

معانی: اس گلستاں : مراد اس ملک ۔ داغ سینے میں رکھنا: مراد دل میں محبت کے جذبے رکھنا ۔
مطلب: مگر حالت یہ ہے کہ میری قوم کا کوئی فرد بھی چشم بینا نہیں رکھتا جو اس کیفیت کا اندازہ کر سکے ۔ یہ ممکن بھی کیسے ہو کہ کسی میں بھی مصائب کا سامنا کرنے کی قوت نہیں ۔

 
چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں

معانی: بلبل تنہا: اکیلا شاعر یعنی خود اقبال ۔ نوا: شاعری ۔ دل چاک ہونا: مراد دل بیحد اثر ہونا ۔ جاگنے والے: بیدار، عمل پر آمادہ ہونے والے ۔
مطلب: اقبال اس آخری بند میں بڑی دلسوزی کے عالم میں کہتے ہیں کہ کاش میری فریاد سے ہی ملت کے لوگ اپنی پستی کا احساس کریں اور میرے یہ نغمے ان کی بیداری کا سبب بن جائیں ۔

 
یعنی پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادہَ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں

معانی: بادہَ دیرینہ: مراد پرانے مسلمانوں والے جذبے ۔
مطلب: یہی نہیں بلکہ وہ اپنے روایتی عہد و وفا کا بھی پاس کریں اور اپنی دیرینہ تعلیمات کو بروئے کار لانے کے لیے آمادہ ہو سکیں ۔

 
عجمی خُم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا، لَے تو حجازی ہے مری

معانی: عجمی خُم: مراد غیر عرب ہونا ۔ مے تو حجازی ہے مری: یعنی میری شاعری تو اسلامی رنگ لیے ہوئے ہے ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ میرا تعلق عرب سے نہیں بلکہ ایک طرح سے عجم کے ساتھ ہے اس کے باوجود میرا مرکز حجاز ہی تو ہے اسی طرح زبان ہندوستان کی صحیح مگر اس میں نغمگی اور کیف تو مدینے ہی کا ہے ۔