Please wait..

(۷)

 
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی 
ہو دیکھنا تو دیدہَ دل وا کرے کوئی

معانی: ظاہر کی آنکھ: ماتھے والی آنکھیں ۔ دیدہَ دل: مرا د بصیرت کی آنکھ ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اس عالم کون و مکاں پر نظر ڈالنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا اس مقصد کے لیے تو لازم ہے کہ اس نگاہ سے دیکھا جائے جو باطن میں بھی اتر جاتی ہے ۔ مراد یہ کہ دنیا پر محض نگاہ غلطانداز ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اسے گہری تجزیاتی نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے ۔

 
منصور کو ہوا لبِ گویا پیامِ موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی

معانی: منصور: حسین بن حلاج فارس کے ایک قصبہ سے تعلق تھا ۔ انا الحق کہنے پر علمائے وقت نے ان کے خلاف فتویٰ دیا جس پر خلیفہ بغداد ، مقتدر کے حکم پر انہیں پھانسی دی گئی ۔ لبِ گویا: مراد زبان ۔ پیام موت: مراد موت کا باعث ۔ دعویٰ کرنا: مراد اظہار کرنا ۔
مطلب: منصور حلاج نے اپنی زبان سے انا الحق کا نعرہ بلند کر کے معرفت خداوندی کی انتہا کر دی لیکن یہ نعرہ جو ایک طرح سے عشق کا دعویٰ تھا اس کے لیے موت کا پیغام بن گیا ۔ سننے والوں نے اسی نعرے کی بنا پر منصور کر سولی چڑھا دیا ۔ ایسی صورت میں کسی کے عشق کا دعویٰ موت سے ہمکنار ہونے کے مترادف نہیں تو بھلا اور کیا ہے

 
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

معانی: دید: محبوب کا دیدار ۔
مطلب: یہاں اقبال کہتے ہیں کہ حقیقت مطلق تک رسائی کی خواہش ہے تو پھر اسے ظاہری آنکھ سے دیکھنے کی بجائے باطن کی نگاہ سے دیکھو کہ اپنے مقصود کی معرفت کا یہی ایک طریقہ ہے ۔

 
میں انتہائے عشق ہوں تو انتہائے حُسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

معانی: انتہائے عشق: مراد عشق کا پورا ، مکمل جذبہ رکھنے والا ۔
مطلب: اے میرے محبوب جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو اس کی حدیں عشق کی انتہا سے جا ملتی ہیں اور تیرے حسن کی کیفیت بھی یہی ہے ۔ اب تو یہ بتا کہ ان دو انتہاؤں کے پیش نظر دیکھنے والا مجھے دیکھے کہ تیرا نظارہ کرے ۔ اسکے لیے تو یہ صورت حال تذبذب کا باعث بن جاتی ہے ۔

 
عذر آفریں جرمِ محبت ہے حُسنِ دوست
محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی

معانی: عذر آفریں : بہانے گھڑنے، تراشنے والا ۔
مطلب: رب ذوالجلال کے جلوے کا تصور یہاں اس دنیا میں میرے عشق کے جذبے میں مزید شدت پیدا کر رہا ہے لیکن خدشہ اس امر کا ہے کہ روز قیامت بھی وہ اپنی رونمائی کے ضمن میں کوئی اور عذر نہ تراش لے ہر چند کہ خدا نے اس امر کا وعدہ کر رکھا ہے ۔

 
چھپتی نہیں ہے یہ نگہِ شوق ہم نشیں
پھر اور کس طرح انہیں دیکھا کرے کوئی

مطلب: محبت کی نظر سے اپنے محبوب کو کتنا بھی چھپ کر دیکھا جائے یہ نظر چھپ نہیں سکتی فوراً پہچان لی جاتی ہے ۔ اس صورت میں اے میرے ہم نشیں تو ہی بتا کہ میں اور کس انداز سے اپنے محبوب کو دیکھوں کہ کسی اور پر میری محبت کا راز افشاء نہ ہو سکے ۔

 
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

مطلب: یہ غزل کا انتہائی خوبصورت شعر ہے جس میں اقبال اپنے انداز میں کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے خدا سے کوہ طور پر جلوہ دکھانے کی ضد کیا سمجھ کر کی جب کہ ان میں اتنی قوت برداشت نہ تھی ورنہ جلوہ دیکھتے ہی بے ہوش کیوں ہوتے ۔ مراد یہ کہ جلوہَ خداوندی کا دیکھنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ نہ جانے حضرت موسیٰ نے اس کے لیے اصرار کیوں کیا ۔

 
نظارے کی یہ جنبشِ مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

معانی: جنبشِ مژگاں : پلکوں کا جھپکنا ۔
مطلب: حسن کے نظارے کے لیے تو پلک جھپکنا بھی بار سے کم نہیں ۔ اس کے لیے لازم ہے کہ نرگس کے پھول کے مانند مسلسل ایک جانب ہی نگاہ رکھی جائے ۔ چشم نرگس کا حوالہ اسی طور پر آتا ہے ۔

 
کھل جائیں کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی

مطلب: میرا محبوب اگر میری طرح سے دو چار دن میرے عشق میں مبتلا رہنے کی زحمت گوارا کرے تو اس پر عشق میں جو مرحلے آتے ہیں وہ اس پر منکشف ہو جائیں ۔