مناصِب
ہُوا ہے بندہَ مومن فسونیِ فرنگ اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نم ناک
معانی: مناصب: منصب کی جمع، عہدے ۔ فسونی فرنگ: جس پر فرنگیوں کا جادو چل چکا ہے ۔ قلندر: بے نیاز درویش ۔ نمناک: آنسووَں سے بھری ہوئی ۔
مطلب: اس نظم میں برصغیر کے اس دور کا ذکر ہے جب یہاں فرنگیوں کی حکومت تھی لیکن اس میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ آج کے آزاد پاکستان کے لوگوں پر بھی صادق آتا ہے بلکہ اس سے زیادہ شرم ناک حد تک صادق آ رہا ہے ۔ پہلے شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ بندہَ مومن آج اپنے مفادات اور ذاتی اغراض کے لیے ایمان کو بیچ کر انگریزوں کے جادو کا شکار ہو گیا ہے اور عہدوں اور ملازمتوں کے لالچ میں اپنی خوداری بیچ چکا ہے ۔ یہ بات دیکھ کر مجھ جیسے قلندر بے نیاز درویش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں ۔
ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلا ک
مطلب: پہلے مصرعے سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ شاعر نے خدا کے عہدہَ بلند ہونے کی خیر مانگی ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ اسلوب کو چھوڑ کر اگر معنی پر غور کریں تو یہ ایک طنزیہ دعا ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے انگریز کی خوشامد کر کے بڑے عہدے حاصل کر لیے ہیں ۔ علامہ طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ اہلیت سے قطع نظر خوشامد کر کے اور دوسرے ذراءع استعمال کر کے تم نے جو بڑے بڑے عہدے حاصل کر لیے ہیں اب خدا تمہارے ان عہدوں کی خیر رکھے کیونکہ تم نے یہ عہدے بہت بڑی قیمت ادا کر کے لیے ہیں اور وہ قیمت یہ ہے کہ تم نے ایمان کو بھی پیش نظر نہیں رکھا اور اپنی خود آگاہی اور خود شناسی کی صفت کو بھی موت کی نیند سلایا ہے پھر جا کر تمہیں یہ عہدے حاصل ہوئے ہیں ۔
مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعتِ چالاک
معانی: طبعتِ چالاک: چالاک طبیعت ۔
مطلب: ہر چالاک طبیعت رکھنے والے اور بیدار مغز شخص کی نگاہ سے یہ بات چھپائے بھی چھپ نہیں سکتی اور اس پر روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراک
معانی: شریک حکم: حکومت میں شامل ۔ جوہر ادراک: سمجھنے کی خوبی ۔
مطلب: کہ انگریزوں نے برصغیر کی غلام قوم کو حکومت میں محض اپنی حکمت کے کل پرزوں کے طور پر استعمال کرنے کے لیے شریک کیا ہے اور ان کے ایمان اور ان کی خودی کے عوض عہدے دے کر ان کی عقل اور دانش کے موتی خریدے ہیں یعنی ان کے دل و دماغ سے اپنی حکومت کی مشینری کو چلانے کا کام لیا ہے ۔