(50)
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
معانی: اہلِ نظر: بہت زیادہ سمجھ رکھنے والے ۔ تازہ بستیاں : نئے مقامات، بستیاں ۔ سوئے کوفہ و بغداد: عراق کے دو بڑے شہر کوفہ اور بغداد کی طرف ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے ایک انتہائی حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لوگ جو دور رس نگاہوں کے مالک ہوتے ہیں اور مستقبل پر نظر رکھتے ہیں وہ ماضی کی شان و شوکت پراکتفا نہیں کرتے بلکہ اس امر کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مستقبل میں ان کا کردار کیا ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے وہ ماضی کے بجائے حسب ضرورت نئی تعمیرات کے لیے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں ۔
یہ مدرسہ، یہ جواں ، یہ سُرور و رعنائی انھی کے دم سے ہے میخانہَ فرنگ آباد
معانی: سرورو رعنائی: ظاہری چمک دمک ۔
مطلب: علامہ کے بیشتر اشعار میں ا گرچہ فکر کی یکسانیت پائی جاتی ہے تاہم ان حوالوں سے بھی وہ اظہار میں تازہ خون کی آمیزش کا بہرحال پوری طرح خیال رکھتے ہیں ۔ اس شعر میں بھی ہر چند کہ انھوں نے نئی بات نہیں کہی تا ہم جو کہا اپنے انداز میں کہا ۔ فرماتے ہیں کہ ملت کے جوان، ہماری درسگاہیں اور مروجہ تہذیب و معاشرت، یہ سب مغربی کلچر کا مغلوبہ ہیں اور اس کلچر میں پوری طرح دھنسے ہوئے ہیں ۔
نہ فلسفی سے نہ ملّا سے ہے غرض مجھ کو یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد
مطلب: علامہ اس شعر میں بھی عہد کے فلسفیوں اور ملاؤں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اول الذکر اپنی فکر کے ذریعے نہ تو کوئی مثبت طرز عمل فراہم کرتے ہیں نا ہی اہل دل کے لیے ان کی دانش تقویت کا باعث ہو سکتی ہے ۔ رہے ملا تو ان کے لیے اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ دین ملا فی سبیل اللہ فساد یعنی ملا تو دین اور اسلام کے نام پر تفرقہ پھیلاتا ہے ۔
فقیہِ شہر کی تحقیر! کیا مجال مری مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد
معانی: دل کی کشاد: دل کا کھل جانا ۔
مطلب: بے شک میرے نزدیک مفتی شہر کی اہانت اگرچہ مناسب نہیں پھر بھی اس میں جو ظرف ہے بہرحال میں اس سے متفق نہیں ۔
خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرتِ پرویز خدا کی دین ہے سرمایہَ غمِ فرہاد
مطلب: بے شک زر و مال پاس ہو تو عیش و طرب کے لیے ہر ممکن سامان کیا جا سکتا ہے لیکن درد کی دولت تو ایسی گراں قدر شے ہے جو مال و زر سے حاصل نہیں ہو سکتی ۔
کیے ہیں فاش، رمُوزِ قلندری میں نے کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
مطلب: مرد مومن، مرد آزاد کے اندر جو باطنی قوت ہوتی ہے اسے میں نے قلندرانہ شاعری کے ذریعے اس لیے فاش کر دیا ہے تا کہ مدرسہ اور خانقاہ کے طالب علم صرف کتابی علم کے علاوہ باطنی طور پر بھی اپنی پہچان کر سکیں تا کہ وہ آزاد فکر انسان بن سکیں ۔
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
معانی: رشی: مہاتما گاندھی ۔ برہمن: مراد ہندو قوم ۔ عصا: ہتھیار ، طاقت ۔
مطلب: ہندووَں نے اپنے اندر ذات پات اور برادری کا جو بت پالا ہوا ہے اسے ان کے رہنما مہاتما گاندھی کی تعلیمات بھی نہ توڑ سکیں اس کے لیے موسیٰ کلیم اللہ جیسی قوت رکھنے والا مرد چاہیے جو عصا کو بھی معجز بنا دے ۔