شکر و شکایت
میں بندہَ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا رکھتا ہوں نہانخانہَ لاہوت سے پیوند
معانی: بندہَ ناداں : بے عقل شخص ۔ نہانخانہَ لاہوت: عالمِ بالا کا پوشیدہ مقام ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ اقبال اللہ تعالیٰ کاپہلے شکر ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں تو ایک نادان سا انسان تھا لیکن تیرے کرم نے مجھے عالم ناسوت (اس مادی دنیا) سے نکال کر عالم لاہوت (اپنے اس پراسرار جہاں سے) متعلق کر دیا ہے جہاں کے افکار و اعمال اس ناسوتی جہان کے اعمال و افکار سے بالکل جداگانہ ہیں اور یہ بات میری شاعری کے موضوعات و مضامین سے صاف ظاہر ہے ۔
اک ولولہَ تازہ دیا میں نے دلوں کو لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند
معانی: ولولہ: جوش ۔ بخارا و سمرقند: ترکستان کے شہر ۔
مطلب: میں نے ایشیا اور وسطی ایشیا کی قوموں اور ان میں سے بھی خاص طور پر یہاں کے مسلمانوں میں اپنی شاعری اور اپنے پیغام کے ذریعے ایک نیا جوش اور ایک نئی امنگ پیدا کی ہے ۔ ان کو خواب غفلت سے جگایا ہے اور ان میں پھر سے آزادی اور عروج حاصل کرنے کا ولولہ پیدا کیا ہے ۔
تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں مرغانِ سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند
معانی: نفس: سانس ۔ مرغانِ سحر: صبح کے پرندے ۔ صبحت: محفل ۔ خورسند: خوش ۔
مطلب: میں نے وہ پیغام جو اپنے کلام کے ذریعے دل وجان کی گہرائی اور خلوص نیت سے دیا ہے اس کا یہ اثر ہوا ہے کہ خزاں کے موسم میں بھی جو پرندے علی الصبح نغمے الاپتے ہیں ( جو لوگ غلامی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں ) میری صحبت میں خوش ہیں ۔ میرے پیغام پر کان دھرتے ہیں لیکن حالات انہیں کچھ کرنے نہیں دیتے ۔
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند
معانی: رضامند: راضی ۔
مطلب: لیکن اے میرے پیدا کرنے والے مجھے تجھ سے خاکم بدہن یہ شکوہ ہے کہ مجھے ایسے ملک میں پیدا کر دیا ہے جو غلام ہے ۔ نہ صرف یہ کہ ملک غلام ہے بلکہ یہاں کے لوگ اپنی غلامی پر مطمئن ہیں ۔ اے کاش میں کسی آزاد وطن اور کسی آزاد قوم میں پیدا ہوا ہوتا تو پھر دنیا کو میرے پیغام کی تاثیر، اس کے نتیجہ اور میری قدر و قیمت کا پتہ چلتا ۔