(49)
فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشہَ چالاک رکھتی ہے مگر طاقتِ پرواز مری خاک
معانی: اندیشہَ چالاک: مکر کی سوچ ۔ طاقتِ پرواز: اڑنے کی طاقت ۔
مطلب: ان اشعار میں اقبال نے اپنی ذات کے حوالے سے ملت بیضا کے بعض مسائل کو پیش نظر رکھ کر بات کی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ان چار اشعار میں قدر مشترک ذات، ملت اور کائنات ہیں ۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ فطرت نے اگرچہ مجھ میں وہ خصوصیت روا نہیں رکھی جو چالاک اور عیاری سے عبارت ہوتی ہے اس کے باوجود مجھ میں وہ صلاحیت موجود ہے جو زندگی کے عروج و ارتقاء میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ حیات انسانی منفی حربوں سے اپنی تکمیل کی طرف نہیں بڑھتی بلکہ اس کے لیے مثبت اور بامقصد طرز عمل درکار ہوتا ہے ۔
وہ خاک ، کہ ہے جس کا جنوں صیقلِ ادراک وہ خاک، کہ جبریل کی ہے جس سے قبا چاک
معانی: صیقلِ ادراک: عقل کو چمکانے والا ۔ قبا چاک: پھٹا ہوا لباس ۔
مطلب: میری ذات اتنی باصلاحیت ہے کہ اس کی دیوانگی بھی ادراک اور سوجھ بوجھ سے خالی نہیں ہوتی ۔ اور جس کے سامنے جبرئیل جیسے فرشتے بھی سرتسلیم خم کر لیتے ہیں ۔ اقبال کا اشارہ یہاں خدائے تعالیٰ کے اس حکم کی جانب ہے جس میں اس نے فرشتوں کو آدم کے روبرو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا ۔
وہ خاک، کہ پروائے نشیمن نہیں رکھتی چنتی نہیں پہنائے چمن سے خس و خاشاک
معانی: پروائے نشیمن: آرام کی جگہ کی طلب ہونا ۔ پہنائے چمن: چمن کی وادی ۔
مطلب: میری ہستی کو عملاً کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ مجھے ایسا آشیانہ درکار ہے جس کی تعمیر کے لیے ایسے وسائل فراہم کیے جا سکیں جو میری بے نیازی پر اثر انداز ہوں نا ہی مجھے دیگر علائق دنیوی سے کوئی سروکار ہے ۔
اس خاک کو اللہ نے بخشے ہیں وہ آنسو کرتی ہے چمک جس کی ستاروں کو غرق ناک
معانی: غرق ناک: آنسو بہانے والا ۔
مطلب: میرا وجود کہ ہر طرح کی خواہش سے بے نیا ز ہے ۔ اس کے باوجود قدرت نے مجھے ایسی روشنی عطا کی ہے جس کا سامنا کرتے ہوئے ستارے بھی ماند پڑ جاتے ہیں ۔ مراد یہ کہ انسانی وجود میں قدرت نے وہ تمام صلاحتیں و دیعت کر دی ہیں جن کے روبرو تمام عناصر احساس کمتری کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ۔