Please wait..

نصیحت

 
بچہَ شاہیں سے کہتا تھا عقابِ سالخورد
اے ترے شہپر پہ آساں رفعتِ چرخِ بریں

معانی: شاہیں : باز ۔ عقاب: باز ۔ سالخورد: بوڑھا ۔ شہپر: بڑے پر ۔
مطلب: یہ نظم بھی اقبال کے مخصوص اندا ز فکر کی حامل ہے جس کی دو بنیادی اور مرکزی کردار ہیں ۔ ان میں ایک تو ایسا شاہیں ہے جو تجربہ کار ہے اور عمر کے آخری مرحلے پر پہنچ چکا ہے ۔ اور دوسرا کردار شاہیں کا بچہ ہے ۔ اس مختصر لیکن جامع اور مکمل نظم کے تین شعر ہیں جن میں ایک پوری داستان بیان کر دی گئی ہے ۔ نظم کی اشعار میں جو مکالمہ کیا گیا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے، ایک تجربہ کار اور عمر رسیدہ شاہیں نے اپنی نسل کے ایک نو عمر شاہیں بچے سے کہا کہ میری دعا تو یہ ہے کہ رب ذوالجلال تیرے بازووَں میں آسمان کی بلندیوں تک اڑنے کی صلاحیت پیدا کرے ۔

 
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں

معانی: شباب: جوانی ۔ سخت کوشی: محنت کرنا ۔ انگبیں : شہد ۔
مطلب: اے عزیز! یہ بات بھی ذہن نشیں کر لے کہ جوانی سخت کوشی ، جفا کشی اور جدوجہد کے عمل سے عبارت ہے ۔ کوئی بھی جاندار عمر کے اس حصے میں ا گر ان خصوصیات کو نہیں اپناتا تو زندگی میں کامیاب و کامران نہیں ہو سکتا ۔ یہ درست ہے کہ ان مراحل کے ضمن میں بسا اوقات بڑے سخت معاملات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن نتیجہ ہمیشہ کامیابی اور کامرانی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے کہ محنت اور جدوجہد کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے ۔

 
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

مطلب: اور یہ بھی جان لے کہ جو لطف اڑتے ہوئے کبوتر پر حملہ آور ہونے اور اس پر جھپٹنے کے عمل میں حاصل ہوتا ہے وہ مزہ تو شاید اس کبوتر کا خون پینے میں بھی حاصل نہیں ہوتا ۔ یعنی ہر بلند ہمت اور جفاکش انسان اس نوع کی جدوجہد میں ہی وہ لطف محسوس کرتا ہے جو فی الواقع جدوجہد سے حاصل کی ہوئی اشیاء میں نہیں ملتا ۔