نمبر ۵
پھر بادِ بہار آئی، اقبال غزل خواں ہو غنچہ ہے اگر گُل ہو، گُل ہے تو گلستاں ہو
معانی: غزل خواں : غزل پڑھنے والا، شعر کہنے والا ۔ برہم ہو: بکھر جا ۔
مطلب: اقبال خود سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ آمد موسم بہار کے ساتھ مست و سرشار ہوائیں چلنے لگی ہیں لہذا تجھ پر غزلخوانی لازم ٹھہرتی ہے ۔ اگر تو غنچہ ہے تو پھول بن جا اور پھول ہے تو گلستان میں تبدیل ہو جا ۔ مراد یہ کہ موسم بہار کی رنگ آمیز فضا میں اپنے وجود کو بھی عمل ارتقاَ سے ہم آہنگ کر لینا چاہیے ۔
تو خاک کی مٹھی ہے، اجزا کی حرارت سے برہم ہو، پریشاں ہو، وسعت میں بیاباں ہو
معانی: برہم ہو: بکھر جا ۔ پریشاں ہو: پھیل جا ۔ جنس: سودا ۔
مطلب: ہر چند کہ تو مشت خاک کی مانند ہے اس کے باوجود جملہ عناصر کی حرارت کا منبع ہے اور اگر یہ عناصر منتشر ہو جائیں تو صحرا جیسی وسعت اختیار کر سکتے ہیں ۔ مراد یہ کہ جبر کی فضا میں بھی انسان اختیار کا اہل ہوتا ہے ۔
تو جنسِ محبت ہے، قیمت ہے گراں تیری کم مایہ ہیں سوداگر، اس دیس میں ارزاں ہو
معانی: گراں : بھاری، زیادہ ۔ کم مایہ: تھوڑی پونجی والا، والے ۔ سوداگر: تاجر، سودا خریدنے، بیچنے والا ۔ ارزاں : سستا ۔
مطلب: اے اقبال! تیرا وجود تو جنس محبت کا ہم پلہ ہے ۔ اس اعتبار سے تیری ذات انتہائی گراں قیمت رکھتی ہے ۔ لیکن تو جس سرزمین کا باشندہ ہے وہاں تو خریداری کرنے والے سوداگر ہی بہت کم مایہ اور بے وسیلہ ہیں جو تجھے موجودہ قیمت میں خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتے لہذا اگر تجھے ان کا پاس ہے تو خود کو ارزاں کر لے اس صورت میں شاید وہ تیرے خریدار بن سکیں ۔
کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لَے تیری تو نغمہَ رنگیں ہے، ہر گوش پہ عریاں ہو
معانی: مستور: چھپی ہوئی ۔ لے: سر ۔ نغمہَ رنگیں : یعنی دل کش شعر کہنے والا ۔ گوش: کان، مراد سننے والے ۔ عریاں : ظاہر، یعنی جسے سب سنیں اور سمجھیں ۔
مطلب: تیری آواز آخر کار کسی ساز کے پردے میں کس لیے پوشیدہ رہے کہ تو تو ایسا رنگیں نغمہ ہے جس کی رسائی ہر فرد کے کانوں تک ہونی چاہیے ۔
اے رہروِ فرزانہ، رستے میں اگر تیرے گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو
معانی: فرزانہ: دانا، عقل مند ۔
مطلب: بے شک تو ایک دانشمند مسافر کی طرح ہے کہ جس کے دوران سفر راہ میں کوئی باغ ہو جائے تو تو اس کے لیے شبنم بن جائے اور اگر صحرا آ جائے تو طوفان کا روپ دھار لے ۔
ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی مقصد ہے اگر منزل غارت گرِ ساماں ہو
معانی: مضمر: چھپا ہوا ۔ تن آسانی: آرام طلبی ۔ غارت گر: تباہ کرنے والا، مراد دلچسپی نہ لینے والا ۔
مطلب: اے اقبال اگر تو مسافرت کے دوران سازوسامان کا آرزومند ہے تو یہ رویہ تن آسانی کے مصداق ٹھہرتا ہے اور اگر مقصد حصول منزل ہو تو پھر کسی طرح کے زاد راہ کی ضرورت نہیں بلکہ اگر سفر کا کوئی سامان تیرے پاس موجود ہے تو اسے اٹھا کر پھینک دے کہ باہمت لوگوں کو منزل مقصود تک رسائی کے لیے کسی سامان کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اگر اس کے پاس کوئی مددگار شے بھی ہے تو وہ ہمت ، جرات اور بلند حوصلگی ہوتی ہے ۔